کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 20
اورلوح و قلم کے شاہ سواروں نے ماضی کے اعاظمِ رجال،اساطینِ علم و فضل،علم و ادب کے سمندر میں غواصی کرنے والے ماہرین کی روشن تاریخوں کو محفوظ کرنے،ان کی زندگی کے تمام حالات و واقعات کو یکجا کرنے،ان کی روشن تاریخوں کو محفوظ کرنے اور ان کے روشن تذکروں اور کارہائے نمایاں کو احاطۂ تحریر میں لانے کا عظیم اہتمام کیا ہے،تاکہ وہ اپنے ماضی کے آئینے میں اپنی تصویر دیکھ سکیں،ان کی زندگی کے نشیب و فراز سے اپنی زندگی کے خطوط متعین کر سکیں اور اپنے اسلاف کے امتیازات و خصائص اور فضائل و مناقب میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کر سکیں۔
اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ سوانح عمریوں میں اگر ایک طرف علم و ادب کا دائرہ وسیع ہوتا ہے اور اس کو تقویت ملتی ہے تو دوسری طرف اس سے قومی و ملی تہذیب و تمدن کی نشو و نما اور ارتقا کا اندازہ،انسانی معاشرے اور اس کے قلب و دماغ اور انسانی زندگی کی اصلاح و تربیت کا کام انجام پاتا ہے۔
(تراجم علماے حدیث،طبع دہلی ۲۰۰۸ء،ص: ۱۷)
مبارک پور ضلع اعظم گڑھ(اترپردیش)کا ایک مردم خیز خطہ ہے۔اس خطے کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ طویل مدت سے احبابِ علم و فضل کا مرکز چلا آ رہا ہے۔
مولانا قاضی اطہر مبارک پوری(المتوفی ۱۹۹۶ھ)لکھتے ہیں :
’’اس ضلع(اعظم گڑھ)میں بہت سے مردم خیز قصبات و دیہات ہیں،مگر کسی ایک قصبہ میں اتنے زیادہ مصنف نہیں ہوئے،جتنے کے مبارک پور اور سوادِ مبارک پور میں گزرے ہیں اور اس وقت بھی پائے جاتے ہیں۔بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ پورے ضلع کا تصنیفی سرمایہ ایک پلے میں رکھا جائے اور علماے مبارک پور کے تصنیفی کارنامے دوسرے پلے میں رکھے جائیں تو ان کا پلہ بھاری ہو جائے گا۔یہاں کے علما میں تدریس و تعلیم کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا خاص ذوق رہا ہے،جو دوسرے