کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 19
نے برصغیر کے علما کے اس بھلائے ہوئے فریضے کی تلافی کرنا چاہی اور وہ تقریباً اس میں کامیاب نظر آئے اور وہ ہیں مولانا عبد الحی فرنگی محلی(المتوفی ۱۳۰۴ھ)جنھوں نے علما کے حالات میں’’طرب الاماثل’‘لکھی اور دوسرے ہیں مولانا سید نواب صدیق حسن خاں(لمتوفی: ۱۳۰۷ھ)جنھوں نے چار کتابیں :’’إتحاف النبلاء’‘فارسی،’’أبجدالعلوم’‘عربی،’’التاج الکل’‘عربی اور’’تقصار جیود الأحرار’‘فارسی لکھیں اور ان کے بعد مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنی(المتوفی ۱۳۴۱ھ)نے’’نزہۃ الخواطر’‘کے نام سے ۸ جلدوں میں عربی میں کتاب تالیف فرمائی،جس میں ساڑھے چار ہزار علماے کرام کے حالات ملتے ہیں۔ سوانح حیات ادب کی وہ صنف ہے،جو کسی خاص فرد کی زندگی کا عکس پیدایش سے موت تک پیش کرتی ہے۔اس کی تمام تر کامیابیوں اور ناکامیوں نیز اس کی زندگی کے اہم واقعات اور نفسیاتی کیفیات کو دلچسپ انداز میں پیش کرتی ہے۔سوانح حیات کو احاطہ تحریر میں لانے کے سلسلے میں مولانا اصغر علی امام مہدی(ناظمِ اعلیٰ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث ہند)نے بڑے خوبصورت انداز میں تبصرہ فرمایا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ اللہ کے نیک اور صالح بندوں کی زندگی کے حالات و واقعات،عبادات و معمولات،تصنیفات و تالیفات بلاشبہہ علم و عمل کی روح،دنیا و آخرت کا سرمایہ،خلوتوں کے رفیق،غم زدوں کی انیس اور زندگی کی تاریک راہوں کا قندیل ہیں اور یہ بھی ایک سچی حقیقت ہے بہ قول ایک مفکر: ’’جو قوم اپنے اسلاف کی تاریخ فراموش کر جاتی ہے،وہ پستی کی انتہا میں پہنچ جاتی ہے۔‘‘ یہی وجہ تھی کہ ہر دور اور ہر زمانے میں اصحابِ فکر و نظر،اربابِ بصیرت