کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 18
بسم اللّٰه الرحمن الرحيم
پیش گفتار
تاریخ و اخبار کا فن گو اسلام سے پہلے موجود تھا،لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی اصل اسلام کے نور سے چمکی۔مسلمانوں میں اس کا آغاز خود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے مجاہدانہ اور علمی کارناموں سے ہوا۔روایات جمع ہوئیں اور ان سے راویوں کا علم وجود میں آیا۔مسلمان جس ملک میں گئے،اس میں علم کی روشنی لے کر گئے۔اس کی برکت سے دنیا کے تاریک سے تاریک گوشے بھی چمک اٹھے،مگر ہندوستان میں مسلمان ایسا نہ کر سکے اور یہاں وہ روشنی نہ پھیل سکی،جتنی کہ وہ پھیلانا چاہتے تھے۔بلکہ ان کی علمی و عملی زندگی کے بہت سے گوشے تاریک ہو گئے۔
قرونِ اولیٰ سے لے کر اپنے اِقبال کے آخری دور تک مسلمانوں نے اپنی ہر صدی کے ممتاز اکابرِ رجال کے سیر و اَخبار کا ایسا دفتر زمانے میں چھوڑا کہ دوسری قومیں اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہیں۔
برصغیر میں علماے کرام کے حالات میں اتنا ہی لکھا گیا،جتنی اس کی ضرورت تھی۔تاہم ملا عبدالقادر بدیوانی نے’’منتخب تواریخ‘‘میں،شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ(المتوفی۔۱۰۵۲ھ)نے اپنی کتاب’’أخبار الأخیار’‘میں اور علامہ غلام علی آزاد بلگرامی(المتوفی ۱۲۰۰ھ)نے’’مآثر الکرام’‘میں علماے کرام کے حالات لکھے ہیں۔ان کے بعد اللہ تعالیٰ نے برصغیر میں تین نامور ہستیاں پیدا فرمائیں،جنھوں