کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 169
علامہ ہلالی ہندوستان میں : جامعہ ازہر سے فراغت کے اور علامہ سید رشید رضا سے تکمیل کے بعد علامہ ہلالی نے محسوس کیا کہ علومِ حدیث،معارفِ حدیث اورفیضانِ حدیث میں ابھی خاطر خواہ تکمیل نہیں ہوئی۔اس دور میں شیخ الکل فی الکل حضرت میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے تلامذہ نے ہندوستان بھر کے مختلف مقامات میں تدریس و تعلیمِ حدیث کی مسندیں بچھائیں ہوئی تھیں۔چنانچہ طلبِ حدیث کا یہی جذبہ علامہ تقی الدین الہلالی المراکشی رحمہ اللہ کو ہندوستان لے آیا۔ علامہ ہلالی کی یہ رحلت علمی محض تحصیلِ حدیث کے لیے تھی۔چنانچہ علامہ تقی الدین الہلالی المراکشی رحمہ اللہ حضرت میاں سیدنذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے تلمیذِ رشید،اپنے وقت کے عظیم محدث مولانا عبد الرحمن محدث مبارک پوری رحمہ اللہ صاحبِ تحفۃ الاحوذی شرح جامع ترمذی کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ مولانا مبارک پوری کو حدیث،علومِ حدیث،اصولِ حدیث اور اسماے فن ورجال پر جو عبور و استحضار اور کمال حاصل تھا،وہ محتاجِ تعارف نہیں۔ چنانچہ علامہ ہلالی رحمہ اللہ نے مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ سے حدیث اور اس کے متعلقات میں کمال حاص کیا۔مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ کی فیض و صحبت اور علمی تربیت کا یہ نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے علامہ ہلالی کے ذوق و حدیث فہمی کو دو چند کر دیا اورعلامہ ہلالی کی حدیث اور اس کے متعلقات پر نظر گہری ہو گئی اور ان کی معلومات کادائرہ بے حد وسیع ہو گیا۔نیز مولانا مبارک پوری کی تربیت سے ان کی سلفیت دو آتشہ بلکہ سہ آتشہ ہوگئی۔ علامہ ہلالی کے دیگر علمی رحلات: علامہ ہلالی نے ہندوستان میں وقت کے سب سے بڑے محدث مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ سے حدیث کے باب میں بے حد فیضان حاصل کیا۔علاوہ ازیں