کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 151
ان پرتنبیہ کی گئی ہے اور جن حدیثوں کو مصنف نے مختصر نقل کیا ہے ان کو اس میں پورا نقل کر دیا گیا ہے۔مسلسل حدیثوں پر نمبر دیے گئے ہیں اور ابواب کی حدیثوں پر علیحدہ بھی نمبر دیا گیا ہے۔شروع میں کئی مفصل فہرستیں اور ایک مقدمہ ہے،اس میں اصولِ حدیث پر عالمانہ گفتگو کی گئی ہے۔‘‘(تذکرۃ المحدثین: ۲/۴۶۴،۴۶۵) ۱۹۴۷ء میں تقسیم ملک سے دار الحدیث رحمانیہ دہلی کا شیرازہ بکھر گیا اور شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ رحمانی رحمہ اللہ اپنے وطن تشریف لے گئے۔آپ ایک سال تک اپنے گھر میں فروکش رہے۔جب حضرت مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۹۸۷ء)اور مولانا حافظ محمد زکریا مرحوم آف چھوک دادو کے نوٹس میں یہ بات آئی تو دونوں علماے کرام نے حضرت شیخ الحدیث کو مشکاۃ المصابیح کا حاشیہ لکھنے کی پیشکش کی،جسے آپ نے بخوشی قبول کیا۔۱۹۴۸ء بمطابق ۱۳۶۷ھ نے مختصر حواشی و تعلیقات کا کام شروع کیا،لیکن آپ کی مہارت فی الحدیث،جامعیت اور غزارتِ علمی نے قلم کو سیال بنا دیا۔جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ تو مشکات کی غیر مسبوق مفصل اور مبسوط شرح ہے۔اس دوران میں مولانا حافظ محمد زکریا رحلت فرما گئے تو آپ کے والدِ محترم مولانا میاں محمد باقر نے اپنے صاحبزادے کے جاری کیے ہوئے اس کار خیر کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا عزم کر لیا اور تعاون جاری رکھا۔ شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ رحمانی مبارک پوری رحمہ اللہ اپنے کام میں مصروف رہے اور ۱۹۶۱ء بمطابق ۱۳۸۰ء’’مرعاۃ المفاتیح’‘کی پہلی جلد المکتبہ السلفیہ لاہور کے زیر اہتمام شائع ہوئی۔’’مرعاۃ المفاتیح’‘کی نو جلدیں پایہ تکمیل تک پہنچیں۔دسویں جلد زیرِ ترتیب تھی تو مولانا عبید اللہ بعض عوارض میں مبتلاہو گئے اور آپ کام جاری نہ رکھ سکے۔ ’’مرعاۃ المفاتیح’‘کی نو جلدیں جامعہ سلفیہ بنارس(انڈیا)سے شائع ہو چکی ہیں۔اب ۲۰۰۹ء میں مکتبہ سلفیہ لاہور نے اس کو بڑی آب و تاب سے شائع کیاہے۔