کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 139
اپنے وطن لوٹ گئے۔اس کے بعد پانچ سال بعد دوبارہ ہندوستان تشریف لائے اور مستقلاً بھوپال کو اپنا وطن بنا لیا۔‘‘(نزہۃ الخواطر: ۸/۱۱۱،۱۱۲) اس اقامت کے زمانے میں ہندوستان کے تمام علاقوں میں ان کی شہرت ہوئی۔آپ نے بھوپال میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا تو آپ کے درس کی ہندوستان میں بہت زیادہ شہرت ہوئی۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۹۹۹ء)آپ کے درس کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’شیخ حسین بن محسن کا وجود اور ان کا درسِ حدیث ایک نعمتِ خداوندی تھا اور اس نے جلیل القدر شیوخِ حدیث کی یاد تازہ کر دی تھی،جو اپنے خدا داد حافظہ،علوِ سند اور کتبِ حدیث و رجال پر عبور کامل کی بنا پر خود ایک زندہ کتب خانہ کی حیثیت رکھتے تھے۔شیخ حسین بہ یک واسطہ علامہ محمد بن علی شوکانی رحمہ اللہ صاحبِ نیل الاوطار کے شاگرد تھے اور ان کی سندِ حدیث بہت عالی اور قلیل الوسائط سمجھی جاتی تھی۔یمن کے جلیل القدر اساتذۂ حدیث کے تلمذ و صحبت،غیر معمولی حافظہ،جو اہلِ عرب کی خصوصیت چلی آ رہی ہے،سالہا سال تک تدریس کے مشغلے اور طویل مزاولت اور ان یمنی خصوصیات کی بنا پر،جن کی ایمان و حکمت کی شہادت احادیثِ صحیحہ میں موجود ہے،حدیث کا فن گویا ان کے رگ و ریشے میں سرایت کر گیا تھا اور ان کے دفتر ان کے سینہ میں سما گئے تھے۔وہ ہندوستان آئے تو علما و فضلا(جن میں بہت سے صاحبِ درس و صاحبِ تصنیف بھی تھے)نے پروانہ وار ہجوم کیا اور فنِ حدیث کی تکمیل کی اور ان سے سند لی۔ ’’تلامذہ میں نواب سید صدیق حسن خاں،مولانا محمد بشیر سہسوانی،مولانا شمس الحق ڈیانوی،مولانا عبد اللہ غازی پوری،مولانا عبد العزیز رحیم آبادی،مولانا سلامت اللہ جیراج پوری،نواب وقار نواز جنگ،مولوی وحید الزمان حیدر آبادی،علامہ محمد طیب