کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 126
مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمہ اللہ سے شاگردی کا مسئلہ: مقلدین احناف کا یہ دعویٰ ہے کہ مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمہ اللہ کے باقاعدہ شاگرد نہ تھے۔آپ نے تبرکاً ان سے سند لی تھی۔ان کے باقاعدہ شاگرد حضرت شاہ عبد الغنی مجددی رحمہ اللہ تھے۔اس قضیے کے بارے میں علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۹۵۳ء)لکھتے ہیں : ’’مولانا سید محمد نذیر حسین کی مولانا شاہ محمد اسحاق صاحب کی شاگردی کا مسئلہ بھی اہلِ حدیث و احناف میں مابہ نزاع بن گیا ہے۔احناف انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کو شاہ صاحب سے بے پڑھے صرف تبرکاً اجازہ حاصل تھا اور اہلِ حدیث ان کو حضرت شاہ صاحب کا باقاعدہ شاگرد بتاتے ہیں۔مجھے نواب صدیق حسن خاں صاحب کے مسودات میں مولانانذیر حسین کے حالات کا مسودہ ملا،جس میں بتصریح مذکور ہے کہ ۱۲۴۹ھ میں شاہ صاحب کے درسِ حدیث میں داخل ہوئے۔عبارت یہ ہے: ’’و در ہمیں سال و سنۃ الف ومأتین وتسع واربعین،حدیث شریف از مولانا محمد اسحاق مرحوم و مغفور شروع فرمودند،و صحیح بخاری و صحیح مسلم بہ شراکت مولوی گل محمد کابلی و مولوی عبید اللہ سندھی و مولوی نور اللہ سروانی و حافظ محمد فاضل سورتی رحمہم اللہ وغیرہ حرفاً حرفاً خواندند و ہدایہ وجامع صغیر بہ معیت مولوی بہاؤ الدین دکنی وجد امجد قاضی محفوظ اللہ پانی پتی و نواب قطب الدین خاں دہلوی وقاری اکرم اللہ وغیرہ وکنز العمال ملا علی متقی علیحدہ بشراح فرمودند،ودو سہ جز خواندند وسنن ابی داود و جامع ترمذی و نسائی وابن ماجہ و موطا امام مالک بتمامہا بر مولانا ممدوح عرض نمودند و اجازہ از شیخ الآفاق حاصل نمودہ‘‘ البتہ شاہ صاحب سے سند و اجازت تحریری انھوں نے ۲ شوال ۱۲۵۸ھ کو