کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 122
بعد آپ نے کان پور،سہرام اور الہ آباد کے مدارس میں تدریس فرمائی۔ان کی تدریس کے بارے میں مولانا حبیب الرحمن قاسمی لکھتے ہیں : ’’مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی کے طرزِ تعلیم کی خاص خصوصیت یہ تھی کہ وہ کتاب سے علیحدہ ہو کر نفسِ مسئلہ کی ایسی تعلیم دیتے تھے کہ اس کا ہر گوشہ طالب علم کے سامنے روشن ہو جاتا تھا۔‘‘(تذکرہ علماے اعظم گڑھ،ص: ۲۹۹) ۱۳۱۸ھ میں ندوۃ العلما لکھنؤ میں مدرس اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔جب ۱۹۰۴ء میں علامہ شبلی نعمانی دار العلوم ندوۃ العلما کے مہتمم تعلیم مقرر ہوئے تو مولانا فاروق چڑیا کوٹی رحمہ اللہ نے استعفیٰ دے دیا اوربلیا میں وکالت شروع کر دی۔اسی زمانے میں بعض انگریزوں نے ان سے عربی پڑھی۔ ۱۹۰۹ء /۱۳۲۷ھ میں علامہ شبلی نعمانی نے ان کو دوبارہ ندوۃ العلما میں بلا لیا اور ان کو ادیب اول کا منصب عطا ہوا۔چند روز کے لیے غازی پور تشریف لے گئے اور وہیں ۲۸ اکتوبر ۱۹۰۹ء بمطابق رمضان ۱۳۲۷ھ کو آپ نے اس دنیاے فانی سے رحلت فرمائی۔إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی رحمہ اللہ علم و فضل کے اعتبار سے جامع الکمالات تھے۔عربی و فارسی ادب میں مہارت تامہ رکھتے تھے اور شعر و سخن سے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔عربی و فارسی میں شعر کہتے تھے۔فارسی نظم و نثر میں ان کو ید طولیٰ حاصل تھا۔صاحب’’نزہۃ الخواطر’‘نے آپ کے عربی اشعار نقل کیے ہیں اور مولانا حبیب الرحمن قاسمی نے ان کے حالات میں ان کے فارسی اشعار نقل کیے ہیں۔اردو میں بھی کبھی کبھی شعر کہتے تھے۔اردو میں ان کے دو مسدس چھپے ہیں : ایک مسدس فاروقی جس میں اعظم گڑھ کے ۱۸۹۳ء ہنگامہ گاؤ کشی کا واقعہ نقل کیا ہے۔دوسرا مسدس عوالی جو مسدس حالی کے جواب میں ہے۔(حیاتِ شبلی،ص: ۷۳)