کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 121
علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۹۵۳ھ)نے اپنے رسالہ’’معارف’‘اعظم گڑھ دسمبر ۱۹۱۸ء میں لکھا ہے: ’’جناب مولانا عبد اللہ غازی پوری رحمہ اللہ کا واقعہ وفات علما کے طبقہ میں خاص حیثیت سے اثر انگیز ہے۔مولانا اتباعِ سنت،طہارت و تقوٰی،زہد و ورع،تبحرعلم،وسعتِ نظر اور کتاب و سنت کی تفسیر و تعبیر میں یگانہ عہد تھے۔اپنی عمر کا بڑا حصہ انھوں نے علومِ دینیہ خصوصاً کتاب مجید اور حدیث شریف کے درس و تدریس میں گزارا اور سینکڑوں طلبا آپ کے فیضِ تربیت سے علما بن کر نکلے۔افسوس کہ شمع نور و ہدایت ۲۱ صفر ۱۳۳۷ھ بمطابق ۲۶ نومبر ۱۹۱۸ء کو ہمیشہ کے لیے بجھ گئی۔۔رحمة اللّٰه عليه۔‘‘(یاد رفتگان،ص: ۴۰) مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی رحمہ اللہ : مولانا محمد فاروق رحمہ اللہ ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ چڑیا کوٹ کے رہنے والے تھے۔جب ہوش سنبھالا تو اپنی تعلیم کا آغاز اپنے بڑے بھائی مولانا عنایت رسول سے کیا۔ان سے صرف،نحو،منطق اورفلسفے کی کتابیں پڑھیں۔منطق کی مزید تعلیم مولانا ابو الحسن منطقی سے حاصل کی۔اس کے بعد مزید تعلیم کے حصول کے سلسلے میں جون پور تشریف لے گئے اور مولانا مفتی محمد یوسف فرنگی محلی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۲۵۵ھ)سے علومِ عقلیہ و نقلیہ میں استفادہ کیا۔مولانا رحمت اللہ فرنگی محلی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۳۰۵ھ)بانیِ مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور سے بھی اکتسابِ فیض کیا۔مولانا نعمت اللہ فرنگی محلی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۲۹۹ھ)بھی آپ کے اساتذہ میں شامل ہیں۔ان سے بھی آپ نے مختلف علوم میں استفادہ کیا تھا۔ فراغتِ تعلیم کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور مختلف مدارس میں آپ نے تدریسی خدمات انجام دیں۔مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور سے تدریس کا آغاز کیا اور کچھ مدت اس مدرسے میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔اس کے