کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 119
صاحب عروض کی غلطیاں نکالتے۔مختصر یہ کہ آپ جامع العلوم ہی نہیں،بحر العلوم تھے۔‘‘ (ابراء اہلِ حدیث والقرآن،ص: ۷) علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۹۵۳ء)لکھتے ہیں : ’’اس درسگاہ(میاں سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ)کے تیسرے نامور حافظ عبداللہ صاحب غازی پوری ہیں،جنھوں نے درس و تدریس کے ذریعے خدمت کی۔کہا جا سکتا ہے کہ مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب دہلوی رحمہ اللہ کے بعد درس کا اتنا بڑا حلقہ اور شاگردوں کا مجمع ان کے سوا کسی اور کو ان کے شاگردوں میں نہیں ملا۔‘‘ (تراجم علماے حدیث ہند(مقدمہ)،ص: ۳۷) مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۳۴۱ھ)لکھتے ہیں : ’’حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری رحمہ اللہ سربرآوردہ فقیہ تھے اور اس قدر تبحر علمی کے باوجود اور درس و تدریس میں مشغول ہونے کے باوصف وہ نہایت متقی اور پرہیزگار تھے۔‘‘(نزہۃ الخواطر: ۸/۲۸۷) مولانا حبیب الرحمن قاسمی فرماتے ہیں : ’’مولانا عبد اللہ جملہ علوم میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔علمی تبحر کے ساتھ ساتھ زہد و تقویٰ کی صفت سے بھی متصف تھے۔ترکِ تقلید میں بہت زیادہ غلو رکھتے تھے۔‘‘(تذکرہ علماے اعظم گڑھ،ص: ۱۹۸) درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف سے بھی غافل نہیں رہے۔آپ کی تصانیف عربی اور اردو میں ہیں،جن کی تفصیل درج ذیل ہے: البحر المواج شرح مقدمۃ مسلم بن الحجاج۔(عربی) تسہیل الفرائض(علم الفرائض) 3۔رسالہ منطق۔