کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 118
تدریس پرمامور ہوئے۔۲۰ سال تک اسی مدرسے میں تدریسی خدمات انجام دیں اور اس ۲۰ سالہ مدت میں بے شمار حضرات آپ سے مستفیض ہوئے۔مثلاً مولانا محمد سعید محدث بنارسی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۳۲۲ھ)،مولانا شاہ عین الحق پھلواروی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۳۲۳ھ)،مولانا عبد الرحمن محدث مبارک پوری رحمہ اللہ(المتوفی ۱۳۵۳ھ)اور مولانا عبد السلام مبارک پوری رحمہ اللہ(المتوفی ۱۳۴۲ھ)۔ (ہندوستان میں اہلِ حدیث کی علمی خدمات،ص: ۱۴۹) ۱۳۲۷ھ بمطابق ۱۹۰۶ء سے مدرسہ آرہ احمدیہ سے علیحدگی اختیار کر لی اور دہلی کو اپنا مسکن بنایا اور ۸ سال تک دہلی میں درسِ قرآن دیا۔دہلی کے قیام میں مولانا سید محمد داوٗد غزنوی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۹۶۳ء)اورشیخ الحدیث مولانا محمداسماعیل سلفی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۹۶۸ء)آپ سے مستفیض ہوئے۔ فنِ تدریس میں ا نھیں کس قدر مہارت تھی؟ صاحبِ عون المعبود مولانا شمس الحق محدث ڈیانوی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۳۲۹ھ)فرماتے ہیں : ’’جناب حافظ صاحب پر مشکل سے مشکل کتاب اورباریک سے باریک فن ریاضی،اقلید،فلسفہ اور منطق کا پڑھانا ایسا آسان کر دیا گیا تھا،جس طرح حضرت داوٗد علیہ السلام کے ہاتھ پر لوہا۔تکمیلِ حدیث کے بعد آپ واپس اپنے قصبہ غازی پور میں تشریف لائے اور مدرسہ چشمہ رحمت میں مدرس اعلیٰ مقرر ہوئے۔سیکڑوں طلبا نے اس چشمہ رحمت سے کسبِ فیض کیا۔تدریس میں اس قدر مصروف ہوئے کہ دیگر علمی مشاغل کے لیے آپ کو وقت نہ ملتا تھا،حتیٰ کہ دن کے بقیہ اسباق رات کو پڑھاتے۔بسا اوقات مدرسہ سے گھر آتے آتے راستے میں سبق دیتے۔علومِ عقلیہ و نقلیہ کی گتھیاں بڑی مہارت سے حل کرتے۔فنِ عروض میں کافی دسترس رکھتے تھے۔آپ کے بھانجے مولانا عبدالرحمن بقا غازی پوری فرماتے ہیں کہ جب میں کوئی عربی قصیدہ لکھتا تو ماموں