کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 117
حفظِ قرآن مجید سے کیا اور ۱۲ سال کی عمر میں حفظِ قرآن مجید کی نعمت سے سرفراز ہوئے۔اس کے بعدعربی اور فارسی کی ابتدائی کتابیں اپنے وطن میں مولوی محمد قاسم سے پڑھنے پائے تھے کہ ۱۸۵۷ء ہنگامہ تحریک آزادی(انگریزوں نے اس کو غدر کا نام دیا)برپا ہو گیا تو آپ کے والدین قصبہ مئو سے غازی پور منتقل ہو گئے۔جب کچھ سکون ہوا تو حافظ صاحب کے والدِ محترم شیخ عبد الرحیم نے آپ کو مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور میں داخل کرا دیا۔یہاں آپ نے بانی مدرسہ مولانا رحمت اللہ لکھنوی رحمہ اللہ(المتوفی۱۳۰۵ھ)اور مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۳۲۷ھ)سے درسیات کی کتابیں پڑھیں۔اس کے بعد جون پور تشریف لے گئے اور وہاں آپ نے مولانا محمد یوسف فرنگی محلی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۲۸۶ھ)سے بقیہ نصاب کی تکمیل کی اور اپنی خدا داد ذہانت و لیاقت سے جلدہی مولانا فرنگی محلی کے مقبول ترین شاگرد بن گئے۔علوم و فنون میں مہارت تامہ یہیں سے حاصل کی۔ فنون سے فراغت کے بعد آپ نے دہلی کا سفر کیا اور شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۲۲۰ھ)کی خدمت میں حاضر ہو کر علمِ حدیث اور علمِ تفسیر وغیرہ کی تکمیل کی۔دہلی میں تکمیلِ تعلیم کے بعد ۱۲۹۷ھ میں حجازمقدس کا سفر کیا۔وہاں آپ نے امام محمد بن علی شوکانی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۲۵۰ھ)کے تلمیذ رشید شیخ عباسی یمنمی سے حدیث کی سند و اجازت حاصل کی۔ حج بیت اللہ سے واپسی کے بعد مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور(جہاں آپ نے اپنی تعلیم کا آغاز کیا تھا)میں تدریس پر مامور ہوئے اور سات سال تک مسلسل اس مدرسے میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ ۱۳۰۴ھ بمطابق ۱۸۸۶ء مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور سے علیحدگی اختیار کر لی اور حافظ ابراہیم آروی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۳۱۹ھ)کی طلب پر مدرسہ احمدیہ آرہ میں درس و