کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 115
انہماک کے ساتھ توحید کی اشاعت اور تبلیغ کرنے لگے۔بنارس،جون پور،غازی پور،گونڈہ اور بالخصوص اعظم گڑھ میں ان کی ذات سے توحید و سنت کی بہت اشاعت ہوئی اور سینکڑوں مواضعات سے شرک و بدعت کو ناپید کر دیا۔مناظرہ میں اپنے عہد میں امام تھے اور وعظ میں بے نظیر۔اعظم گڑھ سے آج تک اس شان کا کوئی عالمِ ربانی نہیں اٹھا اور نہ اعظم گڑھ کے ضلع کے مسلمانوں کے دلوں میں کسی عالم کا اتنا احترام تھا۔‘‘(تراجم علاے حدیث ہند،ص: ۳۸۷) مولانا حبیب الرحمن قاسمی فرماتے ہیں : ’’تحصیلِ علوم کے بعد اپنے مکتبِ فکر کی روشنی میں علومِ دینیہ اور احکامِ شرعیہ کی نشر و اشاعت میں ہمہ تن مشغول ہو گئے۔اعظم گڑھ،جون پور اور غازی پور کے اضلاع میں ان کی ذات سے مسلک اہلِ حدیث کی خوب ترویج ہوئی۔ایک زمانہ تک آپ کا مقام بنارس میں رہا،جہاں علوم و فنون کی تدریس کے ساتھ حدیث و تفسیر کا بھی درس دیتے تھے۔‘‘(تذکرہ علماے اعظم گڑھ،ص: ۹۸) تدریس و نظامت: جن دنوں آپ بنارس میں درس و تدریس میں مصروف تھے تو محی السنہ امیر الملک والا جاہی مولانا نواب صدیق حسن خاں رئیس بھوپال(المتوفی ۱۳۰۷ھ)نے آپ کو بھوپال طلب کیا اور آپ کو مدرسہ سلیمانیہ میں استاد مقرر کیا،اس کے ساتھ واعظ شہر کا منصب بھی عطا کیا گیا اور تمام علما کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ ان کی اجازت کے بغیر وعظ نہیں کر سکتے۔اس کے بعد کچھ عرصہ گزرا تو آپ کو مدرسہ سلیمانیہ کا نائب مہتمم بنا دیا گیا۔اس منصب پر آپ سے پہلے مولانا محمد بشیر سہسوانی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۳۲۶ھ)فائز تھے،جو ریٹائر ہو گئے تو والیۂ بھوپال شاہجہان بیگم صاحبہ نے آپ کو مدرسے کا مہتمم اور ریاست کے جملہ مدارس کا نگران بنا دیا۔‘‘(تذکرہ علماے اعظم گڑھ،ص: ۹۹)