کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 113
اور علم و فضل کے لحاظ سے ان کامرتبہ و مقام بہت بلند تھا۔تفسیر،حدیث اور فقہ پر ان کو عبورِ کامل تھا۔ مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنی(المتوفی ۱۳۴۱ھ)لکھتے ہیں : ’’ذاتی طور پر آپ بہت بڑے عالم تھے۔فنِ حدیث میں سب پر فوقیت رکھتے تھے اور کتاب و سنت کے نصوصِ ظاہر پر عمل کرتے اور اس کااعتقاد رکھتے۔اپنے مخالفین پر بڑا تعصب برتتے،احناف کے لیے ان کی زبان پر بڑی مخالفت تھی۔پرہیزگار اور بڑے دین دار تھے۔عمل میں بڑے نیک تھے۔حجاز مقدس کی طرف آپ نے ایک مرتبہ ۱۲۸۷ھ اور دوسری مرتبہ ۱۲۹۵ھ میں سفر کیا۔آخر میں آپ نے ریاست بھوپال میں عہدہ قضا بھی قبول کر لیا اور اسی عہدے پر ایک مدت تک قائم رہے۔میں نے آپ سے حدیث مسلسل بالاولیہ کی لکھنؤ میں سنی اور آپ نے مجھے بلوغ المرام عنایت فرمائی اور مجھے لکھ کر اجازت دی۔‘‘(نزہۃ الخواطر: ۸/۳۹۶) ۱۳۱۴ھ میں حافظ ابراہیم آروی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۳۱۹ھ)کے مدرسہ احمدیہ آرہ ضلع مدراس تشریف لے گئے۔ ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی(المتوفی ۱۹۶۶ء)لکھتے ہیں : ’’۱۳۱۴ھ میں مدرسہ احمدیہ آرہ تشریف لے گئے اور ایک موقع پر فرمایا کہ اہلِ حدیثوں کے دو سفر ہوتے ہیں : ایک طلبِ حدیث کے لیے،دوسرا نشرِ حدیث کے لیے۔آپ کی تشریف فرمائی کی وجہ سے مدرسہ مرجع خلائق بن گیا۔حوالی اور مدرسہ کے اساتذہ ہالہ بنے ہوئے تھے،جس میں حدیث کا یہ چاند ضیا پاشی کر رہا تھا۔اکثر حضرات نے اطرافِ کتب(روایات)سنا کر سندو اجازہ کی عزت حاصل کی۔‘‘ (تراجم علماے حدیث ہند،ص: ۳۷۸) تصانیف میں آپ نے حدیث اور مختلف موضوعات پر ۲۵ کتابیں بزبان عربی