کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 108
سیرۃ البخاری(المتوفی ۱۳۴۲ھ)اور حافظ شاہ نظام الدین سرہانوی رحمہ اللہ تھے۔حافظ عبد الرحیم مبارک پوری رحمہ اللہ نے رمضان المبارک ۱۳۳۰ھ بمطابق ستمبر ۱۹۱۲ء میں مبارک پور میں انتقال کیا۔ (تذکرہ علماے حال،ص: ۴۳،تذکرہ علماے مبارک،ص: ۱۳۶،تراجم علماے حدیث ہند،ص: ۳۹۸،تذکرہ علماے اعظم گڑھ،ص: ۱۵۵،تراجم علماے اہلِ حدیث: ۱/۲۱۱) مولانا خدا بخش اعظم گڑھی رحمہ اللہ : ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ مہران گنج کے رہنے والے تھے۔ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔اس کے بعد علومِ اسلامیہ کی تحصیل مولانا محمد فیض اللہ مئوی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۳۱۵ھ)اور مولانا علیم الدین حسین نگر نہسوی(المتوفی ۱۳۰۶ھ)سے کی۔حدیث کی تعلیم مولاناقاضی محمد بن عبد العزیز مچھلی شہری(المتوفی ۱۳۲۴ھ)سے حاصل کی۔قاضی صاحب مسلک اہلِ حدیث کے پابند تھے،اس لیے یہی اثر ان میں بھی پیدا ہو گیا۔ علم و فضل کے اعتبار سے مولانا خدا بخش جامع الکمالات تھے۔عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں مکمل عبور تھا۔فارسی زبان سے بہت زیادہ لگاؤ تھا اور فارسی میں شعر بھی کہتے تھے۔اس علمی مہارت کے باوجود ہمیشہ مکتب کی مدرسی کی۔اعظم گڑھ اور اس کے مضافات میں ان کے بہت زیادہ شاگرد تھے۔ زود نویسی اور خط نسخ و نستعلیق دونوں پر ایسی دسترس تھی کہ اپنے اقران و امثال پر فائق سمجھے جاتے تھے۔تصنیف میں صرف ایک رسالہ’’رفع الیدین علی الصدر’‘یادگار چھوڑا۔۱۳۳۳ھ بمطابق ۱۹۱۵ء میں اس دنیاے فانی سے رحلت فرمائی۔ (تراجم علماے حدیث ہند،ص: ۳۹۱،تذکرہ علماے اعظم گڑھ،ص: ۸۹) مولانا محمد سلیم فراہی رحمہ اللہ : مولانا محمد سلیم رحمہ اللہ موضع پھر یا مضافاتِ اعظم گڑھ کے رہنے والے تھے۔علامہ