کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 104
جب تحفۃ الاحوذی کی تکمیل ہو گئی تو حضرت محدث مبارک پوری رحمہ اللہ اس کی طباعت کے سلسلے میں دہلی تشریف لائے تو اپنے عزیز و اقارب اور اپنے تلامذہ کے اصرار پر آنکھوں کے ہسپتال میں داخل ہو گئے۔ڈاکٹر نے اپریشن کیا تو آنکھوں کی بینائی واپس آ گئی۔سب نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور عزیز و اقارب اور عقیدت مند بے حد خوش ہوئے۔ اختلاجِ قلب اور وفات: آنکھوں کے علاج کے بعد مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ اپنے وطن مبارک پور تشریف لے گئے تو اختلاجِ قلب کے دورے پڑنے لگے۔علاج معالجہ ہوتا رہا،لیکن مرض میں افاقہ نہ ہوا،بلکہ روز بروز اضافہ ہوتا رہا۔شعبان ۱۳۵۳ھ کا آخری نصف بہت تکلیف میں گزرا۔رمضان میں بھی یہی کیفیت رہی۔آخر اس مرد درویش نے(جس کی ساری زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پڑھانے میں گزری)۱۶ شوال ۱۳۵۳ھ بمطابق ۲۲ جنوری ۱۹۳۵ء کو داعی اجل کو لبیک کہا۔إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ ان کی نمازِ جنازہ مولانا محمد احمد(صدر مدرس مدرسہ فیض عام مئو)نے پڑھائی۔جنازے میں تمام مسالک فقہی کے لوگوں نے شرکت کی۔جنازے میں شامل لوگوں کی تعداد کاشمار نہیں کیا جا سکتا۔ قاضی اطہر مبارک پوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’اس علاقے کی تاریخ میں اس سے پہلے کسی کے جنازے میں انسانوں کا اتنابڑا ہجوم دیکھنے میں نہیں آیا۔‘‘(تذکرہ علماے مبارک پور،ص: ۱۵۶) ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’نمازِ جنازہ پر زائرین کا ہجوم علاقہ بھر میں اپنی نظیر تھا۔بلا تفریق مشرب تمام فرق اسلامیہ شامل تھے۔قصبہ مئو سے جو مبارک پور سے چوتھا ریلوے اسٹیشن ہے،