کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 103
’’انھیں تجدد،فیشن اور یورپی تہذیب و ثقافت سے سخت نفرت تھی۔طلبا اور عقیدت مندوں کو مغربی لباس اور طور طریقے سے روکتے اور سادگی کا درس دیتے۔یہ اور اس قسم کی بہت سی باتیں مقدمہ’’تحفۃ الأحوذي’‘میں مرقوم ہیں۔جب مسند درس پر بیٹھ جاتے تو دورانِ درس کوئی کتنا ہی بڑا آدمی آ جاتا،اس کی طرف توجہ نہ فرماتے اور کسی کی پروا کیے بغیر تدریس کا سلسلہ جاری رکھتے۔اختتامِ درس کے بعد اس کی طرف توجہ فرماتے اور اس سے بات چیت کرتے۔‘‘(دبستانِ حدیث،ص: ۱۹۸،۱۹۹) آنکھوں کی بینائی سے محروم ہونے پر محدث مبارکپوری رحمہ اللہ کا صبر عظیم: زندگی کے آخری دور میں حضرت محدث مبارک پوری رحمہ اللہ نزول الماء کے عارضے میں مبتلا ہوئے،جس کی وجہ سے آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئے۔اس عظیم آزمایش پر کسی قسم کی جزع فزع اور پریشانی کا اظہار نہیں فرمایا،بلکہ صبر فرمایا اور اس پر اجر و ثواب کے طالب و امیدوار ہوئے۔آپ کے عزیزو اقارب اورعقیدت مندوں نے بار بار آپ کو کہا کہ لکھنؤ،دہلی یا ممبئی جا کر کسی ماہر چشم سے اپنی آنکھوں کا معائنہ کرائیں۔ہو سکتاہے آپ کی آنکھوں کی بصارت لوٹ آئے۔لیکن حضرت محدث مبارک پوری رحمہ اللہ آمادہ نہ ہوتے اور فرماتے: اللہ تعالیٰ سے اس کا جو اجر و صلہ قیامت کو ملے گا،وہ علاج سے کہیں بہتر ہے۔ اسی دور میں آپ’’تحفۃ الأحوذي’‘کی تیسری اور چوتھی جلد کی تکمیل میں مصروف تھے۔بصارت سے محروم ہونے کی وجہ سے تحفۃ الاحوذی کی تکمیل کاکام رک گیا تو شیخ عطاء الرحمن مرحوم(بانی و مہتمم دارلحدیث رحمانیہ دہلی)نے شیخ الحدیث مولانا ابو الحسن عبید اللہ رحمانی مبارک پوری رحمہ اللہ کو تحفۃالاحوذی کی تکمیل کے لیے بہ طور معاون مبارک پور بھیج دیا،جنھوں نے حضرت مبارک پوری رحمہ اللہ کی پوری پوری معاونت کی اور تحفۃ الاحوذی پایۂ تکمیل کو پہنچی۔