کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 102
کی کثرت اور رفقاے کار کی قلت کا شکوہ بھی کبھی ان کی زبان سے نہیں سنا۔حالانکہ یہ ساری تکلیفیں فی الواقع ان کی تھیں۔اگر نہ بھی ہوتیں تو بھی،اگر وہ ان کا ذکر کرتے تو لوگ نہایت عقیدت سے ان کی بات سنتے۔مگر وہ مجسم صبر و شکر تھے۔کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہ لاتے۔‘‘(دبستانِ حدیث،ص: ۲۰۰،بحوالہ ہفت روزہ’’المنیر’‘اگست ۱۹۵۵ء) مورخ اہلِ حدیث مولانامحمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ حضرت محدث مبارک پوری رحمہ اللہ کے اخلاق و عادات کے متعلق مقدمہ’’تحفۃ الأحوذي’‘کے حوالے سے لکھتے ہیں : حضرت مولانا رحمہ اللہ عالی کردار اور بلند اخلاق عالمِ دین تھے۔عمدہ ترین عادات و اطوار کے مالک تھے۔تقویٰ شعار،دنیوی مال و متاع سے بے نیاز،کسی کی دولت کو قبول نہ فرماتے۔دنیاکی کوئی حرص ان میں نہ تھی۔نہایت متواضع،منکسر اور ملنسار تھے۔علما و طلبا سے بہ غایت درجہ محبت رکھتے تھے۔ہر طالب علم کی ذہنی اور علمی صلاحیت کا خیال رکھتے اور اس نہج سے بات کرتے جو وہ آسانی سے سمجھ سکتا۔ ’’علما و طلباکے علاوہ غیر تعلیم یافتہ لوگوں سے رابطہ رکھتے۔رشتے داروں اور غیر رشتے داروں سب سے حسنِ سلوک کا برتاؤ فرماتے۔سب کی بات توجہ سے سنتے اورمشورہ لینے والوں کو مفید مشورہ دیتے۔ان کازیادہ وقت درس تدریس،مطالعہ،تصنیف اور قرآن و حدیث کے مسائل پر غور و تدبر میں صرف ہوتا۔عبادت اور ذکرِ الٰہی میں مشغول ہوتے۔نرم کلام اور شیریں گفتار تھے۔وقار و متانت کا پیکر اور رعب و جلال کے مالک۔لوگوں سے ملتے اور ان کی ضروری باتیں سنتے،لیکن کسی کو ان کی مجلس میں کسی شخص کی غیبت کرنے یا کسی کے متعلق ناشائستہ الفاظ کہنے کی مجال نہ تھی۔اگر کسی شخص کی زبان سے اس قسم کا کوئی لفظ نکل جاتا تو سخت ناگواری کا اظہار کرتے۔ان اوصاف و کمالات کی وجہ سے لوگ ان سے انتہائی متاثر تھے اور ان کے دلوں میں ان کی بے پناہ قدر تھی۔گونڈہ بستی اور دیگر مقامات کے بہت سے لوگ ان کے حلقہ بیعت میں شامل تھے۔