کتاب: تزکیہ نفس - صفحہ 79
خواہ وہ اسے بُرا سمجھے ىا نہ سمجھے۔ اسى طرح جو چىز دوسرے كے لىے مفىد ہو وہ آدمى كو خوشى فراہم كرے، خواہ دوسرا شخص اس پر خوش ہو ىا ناخوش۔ خىر خواہى كى ىہ شرط دوستى كى شرائط سے زائد ہے۔ دوستى كى انتہا: ٭ دوستى كى آخرى حد ىہ ہے كہ كوئى شخص كسى بھى سبب كے بغىر اپنے مال و جان مىں آپ كا شراكت دار ہو اور آپ كو سب لوگوں پر ترجىح دے۔ ٭ اگر مىں نے ’’ بُلَنْسِيَہ‘‘ كى دو شخصىات مظفر اور مبارك [1] كو نہ دىكھا ہوتا تو مىں ىہى سمجھتا كہ ہمارے دور مىں ىہ چىز نا پىدا ہے، لىكن ىہ دو اىسے شخص دىكھنے مىں آئے جو باعث تفرىق حالات پىدا ہو جانے كےباوجود دوستى كےمكمل تقاضے پورے كرتے رہے۔ خامى نما خوبى: ٭ ’’دوست و احباب كے دائرہ كى وسعت ‘‘ اىك اىسى خوبى ہے جو تمام خوبىوں سے بڑھ كر خامى سے ملتى جلتى ہے، ىہ خوبى كئى اجزاء سے مركب ہے۔ بردبارى، سخاوت، صبر، وفادارى، شجاعت و بہادرى، باہمى شراكت ، پاك دامنى، حُسن مدافعت اور تعلىم و تعلّم ىہ سب اىسے پسندىدہ اوصاف ہىں جن كے ذرىعے دوست بنائے جاتے ہىں۔
[1] مظفر اور مبارك بنو عامر كے آزاد كردہ غلام تھے، انھوں نے 401ھ مىں اہل بلنسىہ كى مدد سے اىك مستقل رىاست قائم كى۔ ان كى باہمى دوستى تعجب خىز حد تك زندگى بھر قائم رہى۔ مشہور مورخ ابن حىان اندلسى كا بىان ہے كہ ان كى دوستى اور محبت كى مثال سگے بھائىوں مىں بھى نہىں مل سكتى۔ اىك ہى دسترخوان پر كھانا كھاتے، اىك جىسا لباس پہنتے، سوارى اسلحہ اور تزئىن و آرائش كى چىزىں بھى مشتركہ طور پر استعمال كرتے، بىوىوں كو چھوڑ كر ان كى زىر ملكىت كسى بھى چىز كو كسى اىك كى طرف منسوب كرنا مشكل ہوتا۔ ان كے اہل خانہ بھى محلات مىں اىك ہى جگہ رہائش پذىر ہوتے۔ (الذخيرہ فى محاسن أہل الجزيرہ: 15/1/3)