کتاب: تزکیہ نفس - صفحہ 30
٭ دنىا كے تمام حالات درہم برہم ہو جانے كے بعد آدمى كى سوچ وبچار بالآخر اسے اس نتىجے پر پہنچائے گى كہ اصل كام وہى ہےجىسے محض ’’ اصلاح آخرت ‘‘ كى غرض سے كىا جائے۔ اس كى اىك بڑى وجہ ىہ ہے كہ اگر آپ كسى آرزو كے حصول مىں كامىاب بھى ہو جائىں تو اس كا انجام حزن و ملال ہى ہوگا، وہ اس چىز كے چھن جانے كى بنا پر ہو ىا اسے از خود چھوڑ نے كى بنا پر۔ ان دو باتوں مىں سے اىك كے بغىر كوئى چارہ كار نہىں ہے۔ جب كہ اللہ عزوجل كى رضا كے لىے كىے جانے والے عمل كا انجام فورى طور بھى اور آخرت كے لحاظ سے بھى فرحت و سرور ہوگا۔ فورى طور پر اس طرح كہ جن چىزوں كى وجہ سے لوگ پرىشان رہتے ہىں، آپ ان كى بہت كم پروا كرىں گے ، علاوہ ازىں آپ دوست اور دشمن كے نزدىك قابل تعظىم بھى ہوں گے۔ آخرت كے لحاظ سے اس لىے كہ اس كا عظىم صلہ ’’ جنت ‘‘ ہے۔ انسانىت كا ہدف اساسى: ٭ مىں نے اس چىز كو تلاش كرنے كى انتہائى طلب و جستجو كى جسے حاصل كرنے اور مستحسن سمجھنے مىں سب لوگ ىكساں ہوں۔ تلاش بسىار كے بعد معلوم ہوا كہ وہ اىك ہى چىز ہے اور وہ ہے ’’ازالۂ غم۔‘‘ ٭ جب مىں نے اس پر مزىد غور و خوض كىا تو معلوم ہوا كہ سب لوگ نہ صرف اسے مستحسن سمجھنے مىں اور اس كى طلب و جستجو مىں ىكساں ہىں بلكہ وہ صرف اسى كام كے لىے اپنے آپ كو حركت مىں لاتے ہىں جس كے ذرىعے انہىں ’’ تفكرات ‘‘ سے بچنے كى توقع ہو۔ وہ اپنى زبان پر بھى وہى بات لاتے ہىں جس كے ذرىعے وہ انہىں خود سے ہٹانے كے خواہاں ہوں۔ البتہ كچھ لوگ اس سلسلہ مىں راہ راست سے دور ہىں، كچھ اس كے نزدىك اور كچھ اس پر رواں دواں ہىں۔ مؤخر الذكر لوگ بہت كم كاموں مىں اور بہت تھوڑى تعداد مىں ہوتے ہىں، ىوں كہہ لىجئے كہ ابتداء آفرىنش