کتاب: تعزیہ داری علمائے امت کی نظر میں - صفحہ 75
ڈاکٹر موسیٰ موسوی نے یہ بھی لکھا ہے کہ شام کے ایک بڑے شیعہ عالم سید محسن امین عاملی نے ۱۳۵۲؁ھ میں اس ماتمی حرب و ضرب اور اس سے متعلقہ اعمال کو حرام ٹھہرایا اور اپنی بات کو انہوں نے بڑی صراحت اور بے مثال جرأت کے ساتھ کہا اور شیعوں سے اس طرح کے کاموں کو چھوڑ دینے کا مطالبہ کیا۔مگر علماء اور مذہب کے قائدین نے ان کی سخت مخالفت کی اور اپنے ساتھ بے لگام عوام کو بھی ملالیا۔ان کی اصلاحی کوششیں خاک میں ملنے کے قریب تھیں،مگر ہمارے دادا سید ابوالحسن شیعہ جماعت کے اعلیٰ رہنما کی حیثیت سے ان کی اصلاحی تحریک کے مؤید ہوگئے اور ان کے فتویٰ کی مکمل طور سے تائید کا اعلان کیا۔ ان حضرات کی مخالفت ہوتی رہی مگر سید ابوالحسن کے مقام ومرتبہ اور رعب ودبدبہ کی وجہ سے مخالفت کا زور کم ہوا اور عوامی پیمانے پر سید ابوالحسن کے فتویٰ کو مقبولیت حاصل ہوئی اور دھیرے دھیرے ان رسوم میں بڑی کمی آگئی،ہمارے دادا جب ۱۳۶۵؁ھ میں وفات پاگئے تو بعض نئی قیادتوں نے ان کاموں پر لوگوں کو دوبارہ ابھارنا شروع کیا،اور دھیرے دھیرے اس میں تیزی آتی گئی،پھر بھی ۱۳۵۲؁ھ کے پہلے جیسی پوزیشن پر نہیں لوٹ سکی۔ موسوی صاحب نے اس مقام پر عبرت و موعظت سے پر ایک واقعہ بھی ذکر کیا ہے،لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ محرم کی دسویں تاریخ کو بارہ بجے دن میں میں کربلا میں امام حسین کے روضہ کے قریب کھڑا تھا،ایک مشہور بزرگ شیعہ عالم بھی میرے قریب کھڑے تھے،اتنے میں ماتم کرنے والوں کا ایک جلوس حضرت حسین پر ماتم کرتے ہوئے تلواروں سے اپنے سروں کو لہولہان کیے روضہ حسین میں داخل ہوا،اس جلوس میں شریک لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں پر خون بہے جارہے تھے،یہ بڑا ہی نفرت