کتاب: تعزیہ داری علمائے امت کی نظر میں - صفحہ 74
کی ضرورت ہے جو اسے جہالت اور درندگی کے دلدل سے نکالے،چنانچہ عاشوراء کے دن جب سڑکوں پر ماتمی جلوس چلتے اور اس میں شامل ہزاروں لوگ زنجیروں سے اپنی پیٹھوں پر ضرب لگاتے اور خون میں لت پت ہوتے،اپنے سروں کو ڈنڈوں اور تلواروں سے لہولہان کرتے تو ان تمام مناظر کی تصویریں انگریزی او ریورپی اخبارات میں شائع کی جاتیں،اور سامراجی آقا بڑی خوبصورتی کے ساتھ یہ دلیل پیش کرتے کہ دیکھو ہم محض انسانی فریضہ کی ادائیگی کے لئے ان ممالک میں ڈیرہ ڈالے ہیں جن کے باشندوں کی یہ تہذیب ہے،ان قوموں کو تمدن اور ترقی کی راہ پر لگانے کی خاطر ہمارا قیام وہاں ضروری ہے۔ ڈاکٹر موسیٰ موسوی مزید لکھتے ہیں: بیان کیا جاتا ہے کہ عراق پر برطانوی قبضے کے زمانہ میں اس وقت کے عراقی صدر یاسین ہاشمی عراق سے برطانوی حکومت کے خاتمہ کے متعلق گفت و شنید کے لیے جب لندن گئے تو انگریزوں نے ان سے کہاکہ ہم تو عراق میں محض عراقی عوام کی مدد کے لئے ہیں تاکہ وہ ترقی سے بہرہ ور ہو اور وحشت وبربریت سے باہر نکلے۔اس بات سے یاسین ہاشمی بھڑک اٹھے اور ناراض ہوکر مذاکرات والے کمرے سے باہر نکل آئے،مگر انگریزوں نے ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے ان سے معذرت کی اور بصد احترام ان سے درخواست کی کہ عراق سے متعلق ایک دستاویزی فلم مشاہدہ کریں،ان کو جو فلم دکھائی گئی وہ نجف،کربلا اور کاظمیہ کی سڑکوں پر چلنے والے حسینی(ماتمی)جلوسوں کی تھی جن کے لاٹھیوں اور زنجیروں کی مار دھاڑ کے خوفناک اور نفرت انگیز مناظر فلمائے گئے تھے۔گویا انگریز عراقی صدر سے یہ کہنا چاہتے تھے کہ آپ ہی بتائیں معمولی تہذیب و تمدن والی بھی کوئی قوم اپنے آپ ایسا کر سکتی ہے؟