کتاب: تعزیہ داری علمائے امت کی نظر میں - صفحہ 61
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ’’اللہ تعالیٰ بدعتی آدمی کا روزہ،نماز،صدقہ،حج،عمرہ،جہاد،نفل اور فرض کچھ بھی قبول نہیں کرتے،اور وہ اسلام سے اس طرح نکل جاتے ہیں جیسے آٹے سے بال‘‘اس مضمون کی حدیث ابن ماجہ،بزار،اور طبرانی میں آئی ہے۔شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ نے ان امور کو اپنی تفسیر میں شرک کہا ہے اور تعزیہ کو سجدہ کرنا بت کو سجدہ کرنے کے برابر ہے کیوں کہ لغۃً ہر وہ چیز جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے نصب(بت)ہے۔صاحب مجالس الابرار اور جوہری نے اس کی تصریح کی ہے۔ شرح مواقف میں ہے کہ سورج کو سجدہ کرنا کفر ہے۔اب خود ہی سوچو تعزیہ اور سورج میں کیا فرق ہے؟ مسلمانوں کو ان امور بدعیہ سے پرہیز کرنا چاہیے،تاکہ صحیح مسلمان بن سکیں۔ترمذی میں ابوواقد لیثی سے حدیث ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ حنین کو نکلے تو راستہ میں ایک درخت آیا جس پر مشرک لوگ اپنی تلواریں لٹکایا کرتے تھے،اس کو ذات انواط کہتے تھے۔نومسلموں نے کہا یا رسول اللہ! ہمیں بھی ایک ذات انواط بنادیں،تو آپ نے فرمایا:سبحان اللہ ! یہ تو قوم موسیٰ کی سی بات ہوئی کہ انہوں نے موسیٰ سے درخواست کی تھی کہ ان کے خداؤں جیسا کوئی ہمیں بھی خدا بنا دیں،خدا کی قسم تم یہود ونصاریٰ کی ضرور پیروی کروگے۔پس تعزیہ داری بھی ذات انواط ہی کی ایک صورت ہے،کہ لوگ اس پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں،یہ لوگ پورے مشرک وکافر ہیں،کیوں کہ انہوں نے خدا کے لئے شریک بنادیئے،جس کی مخالفت قرآن مجید کی آیت﴿فَلاَ تَجْعَلُواْ لِلّٰهِ أَندَاداً وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾میں ہے۔ اگر کوئی آدمی سوال کرے کہ تعزیہ وضریح بلکہ مشرکوں کے بت وغیرہ کو بھی خدا کا شریک کیسے بنایا جاسکتا ہے جب کہ وہ ان کو خدا کے برابر درجہ نہیں دیتے،بلکہ اس سے کم تر سمجھتے ہیں۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب اپنی توجہ ان چیزوں کی طرف