کتاب: تعزیہ داری علمائے امت کی نظر میں - صفحہ 6
کے علماء کی اس موضوع پر مستقل کتابیں اور متفرق تحریریں ہیں جو چیخ چیخ کر یہ اعلان کر رہی ہیں کہ یہ تمام رسوم شرکیہ ہیں،ان کا اسلام سے ادنیٰ تعلق نہیں،لیکن پھر بھی سنی مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اپنے علماء کی ہدایات کو نظر انداز کر کے اس موقع پر اہل تشیع کے شانہ بشانہ کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو وعیدوں اور سزاؤں کا گویا مستحق ٹھہراتا ہے۔
اس موقع پر جو جو کام انجام دئے جاتے ہیں شرعی اعتبار سے محل نظر ہونے کے ساتھ عقلی اعتبار سے بھی وہ حد درجہ غیر شائستہ اور ادب و تہذیب سے گرے ہوئے ہیں،یہی وجہ ہے کہ شیعوں میں بھی اہل انصاف اور حقیقت پسند علماء و مفکرین ان رسومات سے غیر مطمئن نظر آتے ہیں۔
زیر نظر رسالہ میں اس موضوع سے متعلق مختلف دور اور مختلف مکاتب فکر کے علماء کے اقوال و فتاوی کا ایک معتدبہ حصہ جمع کیا گیا ہے۔مقصد صرف یہ ہے کہ اس آ ئینہ میں ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور جس راہ پر آنکھیں بند کیے چل رہے ہیں وہ راہ ہمیں کہاں پہونچانے والی ہے اس پر غور کریں۔
چونکہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ مذہب ہی کی طرح مسلک کے معاملے میں بھی مسلمان بہت حساس ہوتا ہے،جس مسلک سے اس کا تعلق ہے اس کے علماء پر اس کا کلی اعتماد ہوتا ہے،اور جب تک کسی قول و عمل پر اپنے مسلک کے علماء کی رائے نہیں جان لیتااسے اختیار نہیں کرتا۔اس لیے اس رسالہ میں ان مسالک کے علماء کے الگ الگ اقوال و فتا وے مندرج کیے گئے ہیں اور براہ راست ہر مسلک کی کتابوں سے معلومات اخذ کی گئی ہیں اور حوالے ثبت کیے گئے ہیں تاکہ پڑھنے والا کلی طور پر مطمئن ہو سکے اور اگر چاہے تو اپنے طور پر ان کتابوں کو بھی دیکھ کر اطمئنان حاصل کرلے۔
واضح رہے کہ اس موضوع سے متعلق ہرمسلک کے علماء ومفتیان کے بیانات وفتاوی اس کثرت سے ہیں کہ اگر کل یا اکثر کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم جلد تیار