کتاب: تعزیہ داری علمائے امت کی نظر میں - صفحہ 57
مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی سوال:محرم کے دنوں میں شہادت حسین کا تذکرہ کرنا حسب روایت ’’سر الشہادتین‘‘جائز ہے یا نہیں؟ کہتے ہیں کہ دلی سے لکھنؤ تک کے تمام اکابرعلما امامین کی شہادت کے تذکرہ کو اپنا معمول بنائے ہوئے ہیں،اور مرزا حسن علی بھی جو شاہ عبد العزیز دہلوی کے اجل تلامذہ سے ہیں محرم میں شہادت کا تذکرہ کرتے ہیں۔اور بعض اہل علم اس کو نا جائز بتاتے ہیں،جیساکہ علامہ ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ میں امام غزالی سے نقل کیا ہے،کیونکہ اس سے صحابہ میں لڑائی جھگڑا سنا جاتا ہے،اور صحابہ سے متعلق دل میں حسن ظن نہیں رہتا،اور شاہ شہیدنے صراط مستقیم میں لکھا ہے کہ وہ امام تو شہید ہو کر جنت میں چلے گئے،یہ خوشی کی بات ہے،نہ کہ رونے پیٹنے کی،اور اگر کوئی آدمی کسی شخص کو اس کے اقارب کی درد ناک داستان سنائے اور بتائے کہ اس کو دشمنوں نے اس طرح مارا تو وہ اس سے ناخوش ہوگا پھر امامین کے متعلق اس کو کیوں جائز رکھا جائے،اور کتاب ’’سر الشہادتین ‘‘کہتے ہیں کہ شاہ عبد العزیز کی نہیں ہے بلکہ کسی شیعہ کی تصنیف ہے،جواب مفصل عنایت فرمائیں۔ الجواب:صورت مرقومہ میں بہتر یہی ہے کہ کربلا کے واقعہ کو نہ بیان کیا جائے جیسا کہ صاحب صواعق اور شاہ اسماعیل شہید نے لکھا ہے،اور شاہ ولی اللہ صاحب نے القول الجمیل میں لکھا ہے کہ: ’’قصہ گوئی کی رسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخین کے زمانہ میں نہ تھی،بعد میں اگر کوئی قصہ گو آیا تو اس کو مسجد سے نکال دیا گیا،قصہ گوئی وعظ نہیں ہے،یہ اچھی بھی ہو