کتاب: تعزیہ داری علمائے امت کی نظر میں - صفحہ 48
(۲). شربت پلانا یہ بھی اپنی ذات میں مباح تھا،کیونکہ جب پانی پلانے میں ثواب ہے تو شربت پلانے کیا حرج تھا،مگر وہی رسم کی پابندی اس میں ہے،اور اس کے علاوہ اس میں اہل رفض کے ساتھ تشبہ بھی ہے اس لئے یہ بھی قابل ترک ہے۔تیسرے اس میں ایک مضمر خرابی یہ ہے کہ شربت اس مناسبت سے تجویز کیا گیا ہے کہ حضرات شہداء کر بلا پیاسے شہید ہوئے تھے،اور شربت مسکّن عطش ہے اس لئے اس کو تجویز کیا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے عقیدہ میں شربت پہنچتا ہے جس کا باطل اور خلاف قرآن مجید ہونا فصل دوم میں مذکور ہو چکا ہے،اور اگر پلانے کا ثواب پہنچتا تو ثواب سب یکساں ہے نہ کہ صرف شربت میں کہ تسکین عطش کا خاصہ ہے۔پھر یہ بھی اس سے لازم آتا ہے کہ ان کے زعم میں اب تک شہدائے کربلا نعوذ باللہ پیاسے ہیں،یہ کس قدر بے ادبی ہے،ان مفاسد کی وجہ سے اس سے بھی احتیاط لازم ہے۔ (۲). شہادت کا قصہ بھی بیان کرنا یہ بھی فی نفسہ چند روایات کا ذکر دینا ہے،اگر صحیح ہوں تو روایات کا بیان کر دینا فی ذاتہ جائز تھا مگر اس میں یہ خرابیاں عارض ہو گئیں: (۱). مقصود اس بیان سے ہیجان اور جلب غم اور گریہ وزاری کا ہوتا ہے،اس میں صریح مقابلہ شریعت مطہرہ کا ہے۔کیونکہ شریعت میں ترغیب صبر مقصود ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ مزاحمت شریعت کی سخت معصیت اور حرام ہے۔اس لئے گر یہ وزاری کو بھی قصدا یاد کر کے لانا جائز نہیں۔البتہ غلبہء غم سے اگر آنسو آجائیں تو اس میں گناہ نہیں۔ (۲). لوگوں کو اس لئے بلایا جاتا ہے اور ایسے امور کے لئے انصرام و اہتمام خود ممنوع ہے۔ (۳). اس میں مشابہت اہل رفض کے ساتھ بھی ہے اس لئے ایسی مجلس کا