کتاب: تعزیہ داری علمائے امت کی نظر میں - صفحہ 34
بجانا،پھر عاشورہ کے دن تعزیہ کے آگے آگے باجہ بجاتے ہوئے اسے مصنوعی کربلا تک لے جانا یہ شرعا کیسا ہے؟ نیز تعزیہ داری،علم اور شدے کی اصل کیا ہے؟ سوال:۲- ڈھول،تاشے اور شدے وغیرہ کو مسجد یا فنائے مسجد میں رکھنا شرعا کیسا ہے؟ نیز مسجدیا فنائے مسجد میں رکھے ہوئے ڈھول،تاشے،علم اور شدے کو باہر نکال کر پھینکنے والا شرعا مجرم ہوگا یا نہیں؟ بینوا توجروا۔ جواب:۱-(الف)تعزیہ داری مروجہ ہند ناجائز و بدعت سیئہ وحرام ہے۔والتفصیل فی اعالی الإفادۃ۔واللّٰهُ تعالیٰ أعلم۔ (ب)یہ سب بھی ناجائز وحرام قاتل اہل اسلام،اور جب یہ ناجائز اور حرام ہیں تو ان کی اصل کیا ہوسکتی ہے؟ ہاں،اگر سائل کی مراد یہ ہو کہ یہ کس کی نقل ہے کہ جس کی نقل ہو اس کی اصل قرار دی جائے تو نظر غائر میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ علم اور شدے جو نیزوں اور جھنڈوں کی شکل میں ہوتے ہیں،غالباً یزید فوج کے اس فعل کی نقل ہے جو انہوں نے کربلا میں ظلم وجفا کے پہاڑ توڑنے کے بعد امام عالی مقام کا سر مبارک نیزوں پر کوفہ کی گلیوں میں بطور شادیانہ ومبارکبادی گھمایا تھا۔واللہ تعالیٰ أعلم۔ جواب:۲- یہ واہیات اور خرافات چیزیں سب ناجائز ہیں تو جہاں بھی رکھیں ناجائز ہی ہیں اور مسجد یا فنائے مسجد میں بدرجہ اولیٰ ناجائز،اور ان چیزوں کو مسجد سے نکال کر پھینکنے والا ثواب پائے گا کیوں کہ اس نے ناجائز چیز کو دفع کیا اور حدیث ’’من رأی منکم منکرا-الخ‘‘ پر عمل کیا۔واللّٰهُ تعالیٰ أعلم۔ محمد احمد جہانگیر خان غفرلہ ولابویہ المنان مفتی مرکز اہل سنت منظر اسلام بریلی شریف