کتاب: تعزیہ داری علمائے امت کی نظر میں - صفحہ 31
کہیں تخت بنائے جاتے ہیں،کہیں ضریح بنتی ہیں اور علم اور شَدّے نکالے جاتے ہیں،ڈھول تاشے اور قسم قسم کے باجے بجائے جاتے ہیں،تعزیوں کا بہت دھوم دھام سے گشت ہوتا ہے۔آگے پیچھے ہونے میں جاہلیت کے سے جھگڑے ہوتے ہیں۔کبھی درخت کی شاخیں کاٹی جاتی ہیں،کہیں چبوترے کھدوائے جاتے ہیں۔تعزیوں سے منتیں مانی جاتی ہیں،سونے چاندی کے علم چڑھائے جاتے ہیں،ہار،پھول،ناریل چڑہاتے ہیں،وہاں جوتے پہن کر جانے کو گناہ جانتے ہیں،بلکہ اس شدت سے منع کرتے ہیں کہ گناہ پر بھی ایسی ممانعت نہیں کرتے،چھتری لگانے کو بہت برا جانتے ہیں۔تعزیوں کے اندر دو مصنوعی قبریں بناتے ہیں،ایک پر سبز غلاف اور دوسری پر سرخ غلاف ڈالتے ہیں۔سبز غلاف والی کو حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی قبر اور سرخ غلاف والی کو حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی قبر یا شبیہ قبر بتاتے ہیں۔اور وہاں شربت،مالیدہ وغیرہ پر فاتحہ دلواتے ہیں،یہ تصور کرکے کہ حضرت امام عالی مقام کے روضہ اور مواجہہ اقدس میں فاتحہ دلارہے ہیں۔پھر یہ تعزیے دسویں تاریخ کو مصنوعی کربلا میں لے جا کر دفن کرتے ہیں۔گویا یہ جنازہ تھا جسے دفن کرآئے۔پھر تیجہ،دسواں،چالیسواں سب کچھ کیا جاتا ہے اور ہر ایک خرافا ت پر مشتمل ہوتا ہے۔ حضرت قاسم رضی اللہ تعالی عنہ کی مہندی نکالتے ہیں گویا ان کی شادی ہورہی ہے اور مہندی رچائی جائے گی اور اسی تعزیہ داری کے سلسلہ میں کوئی پیک بنتا ہے جس کے کمر سے گھنگھرو بندھے ہوتے ہیں،گویا یہ حضرت امام عالی مقام کا قاصد اور ہر کارہ ہے جو یہاں سے خط لے کر ابن زیاد یا یزید کے پاس جائے گا اور وہ ہرکاروں کی طرح بھاگا پھرتا ہے۔