کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 80
کا علم ہو ،اور یا پھر کسی خبرِ صادق کے ذریعہ وہ کیفیت بتادی جائے ،اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی کیفیت کے بارہ میں یہ سارے طرق منتفی ہیں ،لہذا ان صفات کی کیفیت بیان کرنے کا عقیدہ قطعاًوحتماًباطل ہوگیا۔ پھر ہم پوچھتے ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کی صفات کی کس کیفیت کو ذہن میں بٹھاؤ گے؟؟؟سچی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی جو بھی کیفیت تمہارے ذہن میں ہو،اللہ تعالیٰ اس سے کہیں زیادہ بڑا اور عظمت وجلالت والاہے۔تو پھر لامحالہ جو کیفیت اپنے ذہن میں لاؤ گے تم اس میں جھوٹے ہوگے ،کیونکہ تمہارے پاس کیفیت کا کوئی علم نہیں ہے ،لہذا ضروری ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی تکییف سے یکسر باز آجائے ،نہ اس کی کیفیت کا دل میں تصور لائے ،نہ زبان سے بیان کرے ،نہ قلم سے تحریر کرے۔ یہی وجہ ہے کہ جب امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیاکہ اللہ تعالیٰ کے استواء علی العرش کی کیفیت کیا ہے ؟ تو (اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے) آپ نے اپنا سر جھکالیااور پسینے میں شرابور ہوگئے ،پھر فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کااستواء علی العرش معلوم ہے ،لیکن کیفیت معلوم نہیں،اس پر ایمان لانا واجب ہے اور کیفیت کا سوال کرنا بدعت ہے۔ ([1])امام مالک رحمہ اللہ کے شیخ ربیعہ سے بھی اسی طرح کا قول منقول ہے یعنی :استواء علی العرش معلوم ہے اور کیفیت غیر معلوم ہے ۔ توجب صفات کی کیفیت شریعت نے بیان نہیں کی ،اور ہماری عقل میں بھی یہ کیفیت نہیں
[1] اس اثر کو امام بیہقی نے الاسمآء والصفات (۲/۱۵۱) اورامام لالکائی نے شرح اصول اعتقاد اھل السنۃ(۲/۳۹۸) اور امام ذہبی نے’’ العلو‘‘ میں ذکر فرمایا ہے،شیخ السلام نے صحیح اور ثابت کہاہے ،شیخ البانی نے مختصر العلو میں صحیح کہاہے۔