کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 63
استعمال مقابلۃً ہو۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب یہ صفات ان لوگوں کے مقابلے میں ذکر ہوں جو اس قسم کا معاملہ اللہ تعالیٰ سے روا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں(مثلاً:وہ اللہ تعالیٰ سے مکر، کیدیا خداع کا معاملہ کرتے ہیں ،اللہ تعالیٰ بھی انکے ساتھ مکر،کیدیا خداع کا معاملہ فرماتا ہے) یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ اللہ تعالیٰ عاجز نہیں ہے ،بلکہ اپنے دشمنوں کے ساتھ ویسا ہی معاملہ بلکہ اس سے بھی سخت کرنے پر قادر ہے جیسا وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہ صفات (مکر،خداع وغیرہ ) اگر بصورتِ مقابلہ مذکور نہ ہوں تو پھر یہ صفاتِ نقص ہونگی، جن کا اللہ تعالیٰ کیلئے اثبات ناجائز ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان صفات کو ا پنے لیئے علی سبیل الاطلاق ذکر نہیں فرمایا، بلکہ ان لوگوں کے مقابلے میں ذکر فرمایا جو اس کے یا اس کے رسولوں کے ساتھ اس نوع کا معاملہ روا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔چنانچہ درج ذیل آیاتِ کریمہ ملاحظہ ہوں: [وَيَمْكُـرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللہُ۝۰ۭ وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِـرِيْنَ۝۳۰ ][1] ترجمہ:وہ تو اپنی تدبیریں کررہے تھے اوراللہ اپنی تدبیر کررہا تھا اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والااللہ ہے۔ [اِنَّہُمْ يَكِيْدُوْنَ كَيْدًا۝۱۵ۙ وَّاَكِيْدُ كَيْدًا۝۱۶ۚۖ ][2] ترجمہ:البتہ کافر داؤ گھات میں ہیں ۔اور میں بھی ایک چال چل رہا ہوں۔
[1] الانفال:۳۰ [2] الطارق:۱۶-۱۵