کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 38
اور ہمیں صرف زمانہ ہی مارڈالتا ہے۔ یہاںالد ھر سے ان کی مراد وقت ہے یعنی راتوں اوردنوں کا گزرنا۔یہاں یہ اعتراض وارد ہوسکتا ہے کہ ایک حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو ’’الدھر‘‘کہا ہے ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ـ:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (یؤذینی ابن آدم یسب الدھر وأنا الد ھر بیدی الامر أقلب اللیل وا لنھار)[1] ترجمہ:ابنِ آدم، مجھے تکلیف دیتا ہے اور وہ اس طرح کہ وہ دھر یعنی زمانے کو گالی دیتا ہے، اور دھر تو میں ہوں۔ اس حدیث میں ایسی کوئی دلالت نہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہوکہ’’ دھر‘‘ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے؛ کیونکہ جو لوگ’’ دھر‘‘ کو گالی دیتے تھے ،ان کی مراد اللہ تعالیٰ نہیں بلکہ زمانہ ہوتا جو کہ حوادث ومصائب کا محل ہے ۔ اس حدیث کے لفظ ’’أنا الد ھر‘‘ کا معنی وہی ہوگا جو حدیث نے خود تفسیر کرکے یہاں بیان کردیایعنی (بیدی الامر أقلب الیل والنھار)میں زمانہ ہوں …میرے ہاتھ میں امر ہے، میں رات اور دن کو پھیرتا ہوں…چنانچہ اللہ تعالیٰ خوددھر نہیں ہے بلکہ دھر اور جو کچھ اس میں ہے اس کا خالق ہے۔ اس حدیث نے یہ بھی بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ ’’دھر‘‘ (رات دن) کو پھیرنے والا ہے ،تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ’’مقلِّب‘ ‘یعنی(پھیرنے والا) مقلَّب (جس کو پھیرا جاتاہو) بن جائے …لہذا
[1] صحیح بخاری:۴۸۲۶،۶۱۸۱،ا۷۴۹،صحیح مسلم:۵/۴۵۸