کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 37
بنایا۔اور جس نے (ٹھیک ٹھاک) اندازہ کیا اور پھر راہ دکھائی۔اور جس نے تازہ گھاس پیدا کی۔پھر اسے (سکھا کر) سیاہ کوڑا کردیا۔ ان آیاتِ کریمہ میں ایک ہی موصوف کے بہت سے اوصاف مذکور ہیں،لیکن ان بہت سے اوصاف سے تعددِ قدماء لازم نہیں آتا ۔ عقل بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے ،چنانچہ کوئی ذات اگر بہت سی صفات سے متصف ہوتو یہ بہت سی صفات اس ذاتِ موصوف سے متباین نہیں ہیں کہ جن کو ثابت کرنے سے تعددِ موصوف لازم آتا ہو، بلکہ یہی کہا جائے گا کہ یہ ایک ہی ذاتِ موصوفہ کی مختلف ومتعدد صفات ہیں جو اس کے ساتھ قائم ہیں۔اور ہر وہ شیٔ جو موجود ہو اس میں مختلف صفات کا پایا جانا ضروری ہے ،چنانچہ اگر کسی کو’’ الموجود‘‘ کہا جائے تو اس میں صفتِ وجود (پایا جانا) آگئی ، پھر یہ بھی کہ وہ’’ واجب الوجود‘‘ ہے یا’’ ممکن الوجود‘‘، نیز یہ کہ اس کا وجود ذاتی ہے جو قائم بنفسہ ہے یا ایسے وصف کے طور پر ہے کہ جو کسی شیٔ میں پایا جائے۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ’’ الد ھر‘‘ (زمانہ) اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے نہیں ہے؛ کیونکہ’’ الد ھر‘‘ایک جامد نام ہے جس میں ایسا کوئی معنی یا وصف نہیں جو اسے اسماءِ حسنیٰ کے ساتھ ملحق ہونے کے لائق بنائے۔اور اس لیئے بھی کہ ’’الدھر‘‘محض وقت یا زمانہ کا نام ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے منکرینِ قیامت کے بارہ میں فرمایا: [وَقَالُوْا مَا ہِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَنَحْيَا وَمَا يُہْلِكُنَآ اِلَّا الدَّہْرُ۝۰ۚ ][1] ترجمہ:انہوں نے کہا کہ ہماری زندگی توصرف دنیا کی زندگی ہے،ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں
[1] الجاثیۃ:۲۴