کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 35
ہے جو ’’العلیم ‘‘کا نہیں ،اور ’’العلیم‘‘کا اپنا معنی ہے جو’’ القدیر‘‘ کا نہیں… واضح ہو کہ ہم نے جو یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ کا ہر نام علَم ہے اور وصف بھی،تو یہ حقیقت خود قرآن نے بتلادی ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : [وَہُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۝۸][1] ترجمہ:وہ ذات غفور رحیم ہے ۔ دوسری جگہ فرمایا: [وَرَبُّكَ الْغَفُوْرُ ذُو الرَّحْمَۃِ۝۰ۭ ][2] ترجمہ:تیرا رب غفور ہے اور رحمت والا ہے۔ پہلی آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ’’الرحیم ‘‘بھی ہے اور دوسری آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ رحمت والا ہے یعنی صفت ِرحمت سے متصف ہے۔پھر لغت اور عرفِ عام میں یہ بات اجماع کا درجہ رکھتی ہے کہ ’’علیم‘‘اسے ہی کہا جائے گا،جس میں علم کا وصف ہواور’’ سمیع‘‘ اسے ہی کہا جائے گا ،جس میں’’سمع‘‘(سننے) کا وصف ہو۔ اور ’’بصیر‘‘وہی کہلائے گا جس میں بصر (دیکھنے) کی صفت ہو۔اور یہ بات اس قدر واضح اور صریح ہے کہ اسے ثابت کرنے کیلئے کسی دلیل کی قطعی ضرورت نہیں ہے ۔ اس تفصیل سے ان معطلہ کی گمراہی اور ضلالت کھل کر سامنے آگئی جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے
[1] الاحقاف:۸ [2] الکھف:۵۸