کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 213
سے نقائص منسوب کرنے، اور اللہ تعالیٰ کی صفتِ علو کاانکار کرنے کو مشتمل ومتضمن ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص یوں کہے کہ اللہ تعالیٰ بذاتہ ہرجگہ موجود اوراپنی خلق کے ساتھ مختلط ہے، حالانکہ اس کا فرمان ہے: [وَسِعَ كُرْسِـيُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ۝۰ۚ ][1] ترجمہ:اوراس کی کرسی کی وسعت نے زمین وآسمان کو گھیر رکھاہے۔ نیز فرمایا: [وَالْاَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌۢ بِيَمِيْنِہٖ۝۰ۭ ][2] ترجمہ:ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی،اور تمام آسمان اسکے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہونگے۔ (۵) پانچویں بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی’’ معیت مع الخلق‘‘ اس کے ’’علو علی الخلق‘‘ اور ’’استواء علی العرش‘‘ کے منافی یا متناقض نہیں ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ کیلئے مطلقاً علو ثابت ہے، جو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اسکی صفت (اورمرتبہ ومقام)دونوں کوشامل ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان: [وَھُوَالْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ۝ ][3] ترجمہ:وہ تو بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔
[1] البقرۃ:۲۵۵ [2] الزمر:۶۷ [3] البقرۃ:۲۵۵