کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 212
’’بہت سے علماء نے اجماع نقل کیا ہے کہ یہاں معیت سے مراد معیتِ علم واحاطہ ہے اور بلاشبہ یہ مراد لینا محمول برحقیقت ہے ۔اللہ تعالیٰ کے علم کے ساتھ ساتھ یہ عقیدہ بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی ہربات سنتا اور ہرچیز دیکھتا ہے ،چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنی خلق کے تمام احوال وامور پر پوری طرح مطلع ہے اور اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ‘‘
(۴) اللہ تعالیٰ کی معیت مع الخلق ،کہ اللہ تعالیٰ اپنی خلق کے ساتھ مختلط یاان میںحلول کیئے ہوئے ہے ،صفتِ معیت کا یہ معنیٰ چونکہ اللہ تعالیٰ کے حق میں باطل اورناممکن ہے،لہذا یہ معنی کسی بھی صورت جائز نہیں ہے اور یہ بات بھی جائز بلکہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی کلام باطل یاناممکن اور محال معنی پر مشتمل ہو۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ العقیدۃ الواسطیۃ (ص:۱۱۰) میں فرماتے ہیں:
’’ اللہ تعالیٰ کے فرمان:’’وھو معکم‘‘ کا یہ معنی نہیں ہے کہ خلق کے ساتھ مختلط ہے۔لغت ’’مع‘‘ کے اس معنی کو ہر جگہ ضروری قرار نہیں دیتی ۔چاند اللہ تعالیٰ کی ایک چھوٹی سی نشانی ہے،جو آسمان میں رکھی گئی ہے اوروہ ہر مسافر وغیرمسافر کے ساتھ ہے ،خواہ وہ کہیں بھی چلے جائیں۔‘‘
یہ معنی باطل ہے ،پرانے جہمیہ میں سے صرف فرقہ حلولیہ نے مراد لیا ہے ،جن کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے،اللہ تعالیٰ ان کی اس بات سے بہت بلند ہے، وہ اپنے منہ سے بہت بڑی اور ناگوار بات کہہ گئے ،اور وہ تو ہیں ہی بڑے جھوٹے۔
حلولیہ جہمیہ کا یہ قول ائمہ سلف میں سے جس جس تک پہنچا انہوں نے اس کی شدید نکیر فرمائی، کیونکہ اس مذہب سے بہت سے باطل امور لازم آتے ہیں،جو اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف بہت