کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 211
’’لفظِ ’’مع‘‘ کے تعلق سے غایتِ کلام یہ ہے کہ یہ کسی بھی امر میں مصاحبت ،مقارنت اور موافقت پر دلالت کرتا ہے،اور ہر مقام پر سیاقِ عبارت کی روشنی میں اس مقارنت کا حسبِ مقام معنی متعین ہوگا۔جب یہ کہاجائے ’’ اللہ مع خلقہ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے ساتھ ہے،تو یہ عموم ہے جس کا معنی ہوگاکہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کوجانتا ہے، ان پر قدرت رکھتا ہے،اوران کے جملہ امورکی تدبیر فرماتاہے،لیکن جب لفظِ ’’مع‘‘ کا ذکرمخصوص پیرائے میں ہوگا جیسے قولہ تعالیٰ: [اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ ہُمْ مُّحْسِنُوْنَ۝}[1] ترجمہ:یقین مانوکہ اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں اورنیک کاروں کے ساتھ ہے۔ تویہاںمقارنت کے ساتھ ساتھ نصرت،تائید اور معونت کا معنی بھی لازماً شامل ہوگا۔ ثابت ہواکہ اللہ تعالیٰ کی اپنی بندوں کے ساتھ معیت دوقسم کی ہے ،ایک معیتِ عامہ اور دوسری معیت ِخاصہ۔ قرآن حکیم نے معیت کی ان دونوںقسموں کو ذکر کیا ہے،محض لفظی اشتراک کے طورپر نہیں،بلکہ معیت وصحبت کی جو حقیقت اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان ہے، اسی حقیقت کے ساتھ۔‘‘ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے ’’الاربعین النوویۃ‘‘ کی ۲۹ و یں حدیث کی شرح کے ضمن میں فرمایاہے:’’ اللہ تعالیٰ کی معیت ِخاصہ ،نصرت ،تائید ،حفاظت واعانت کی متقاضی ہے ،جبکہ معیتِ عامہ، اللہ تعالیٰ کا بندوں پر علم واحاطہ اورانکے تمام اعمال کی مکمل نگرانی کی متقاضی ہے‘‘ حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ سورۃالمجادلۃکی آیتِ معیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
[1] النحل:۱۲۸