کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 198
لیکن جس شخص پر حق واضح ہوجائے، لیکن وہ ا پنے مذہب کی پیروی یا اپنے لیڈر یاامام کی تقلید یا دنیا کی کسی اور وجہِ ترجیح کی بناء پر اس کی مخالفت وانکار پر مصر ہے۔تو یہ شخص اس حکم کا مستحق بن جاتا ہے،جس کا وہ قول یافعل متقاضی ہے ،خواہ وہ کفر ہو یافسق ۔ لہذا ایک مؤمن پر یہ بات فرض اور متعین ہے کہ وہ اپنے ہر عقیدہ وعمل کی اساس کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرار دے دے۔کتاب وسنت کو اپناایسا امام ومقتدیٰ تسلیم کرلے کہ انہی کے نور سے ہمیشہ روشنی حاصل کرے،اور انہی کے طریق ومنہاج پر پوری زندگی چلتا رہے۔ یہی وہ صراطِ مستقیم ہے جسے اختیار کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا: [وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْہُ۝۰ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّـبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِہٖ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِہٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۵۳ ][1] ترجمہ:اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راہ پہ چلو اور دوسری راہوں پہ مت چلوکہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی، اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیارکرو۔ اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے مسلک سے ڈرتا اور بچتا رہے جو کسی مذہبِ معین کو اپنے ہر عقیدہ وعمل کی اساس قرار دیتے ہیں،اور جب کتاب وسنت کے نصوص کو اپنے مذہب کے خلاف پاتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ ان نصوص کو من مانی تاویلیں کرکے مطابقِ مذہب بنالیں ۔اور اس سلسلہ میں ظلم،عناد اور تعصب پر مبنی ایسی تاویلیںکرجاتے ہیں،کہ قرآن وحدیث
[1] الانعام:۱۵۳