کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 197
میں کہا جائے گاکہ یہ دلائلِ شرعیہ کی روشنی میں کلمۂ کفرہے (نہ کہ اس کے قا ئل کو کافر کہا جائے گا) کیونکہ کسی بھی شخص کا ایمان ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ثبوت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے ہوتا ہے،تو پھر دوسرے لوگوں کو کیاحق ہے کہ وہ محض اپنے ظنون یاخواہشات ومیلانات کی روشنی میں اس شخص کے کفر کا حکم لگاتے پھریں… لہذا یہ بات ضروری نہیں کہ اس مقالۂ کفر کے کہنے والے ہر شخص کی تکفیر کردی جائے، جب تک اس کے حق میں شروطِ تکفیر ثابت نہ ہوجائیں، اور موانعِ تکفیر منتفی یازائل نہ ہوجائیں۔جیسے ایک شخص شراب یا سود کو حلال کہتا ہے اور اس کاحال یہ ہے کہ یاتو وہ نیا نیا مسلمان ہوا ہے،یاکسی دوردراز دیہات میں رہنے کی وجہ سے وہ اس مسئلہ سے ناواقت اور ناآشناہے، یا مسئلہ تو اس تک پہنچالیکن اس کا قرآن وحدیث سے ثابت ہونا اسے معلوم نہ ہوا ہو …تو ایسے شخص کو اس وقت تک کافر قرار نہیں دیاجاسکتا جب تک اس پر حجت بالرسالۃ قائم نہ ہوجائے،جس کا اس آیتِ کریمہ میں ذکر ہے: [لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللہِ حُجَّــۃٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ ۝۰ۭ ][1] ترجمہ:تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر رہ نہ جائے۔ جبکہ یہ بات بھی معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کے خطأ ونسیان کومعاف فرمادیا ہے ۔ ثابت ہواکہ بعض اوقات ایک قول یا عمل کفر یافسق ہوتا ہے،لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس کا کہنے یا کرنے والاکافر یافاسق ہو۔یا تو اس لیئے کہ اس کی تکفیر یا تفسیق کی شرط موجود نہیں ،یا کوئی ایسا شرعی عذر موجود ہے جو اس کے کافر یا فاسق ہونے کو مانع ہے۔
[1] النساء:۱۶۵