کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 196
شخص کا قصہ مذکور ہے،جس نے اپنے بیٹوں کو اپنی موت سے قبل لاش کوجلادینے اور اس کی راکھ کو ہواؤں میں بکھیرنے اور سمندر کی لہروں کے سپردکردینے کی وصیت کی تھی،اس شخص نے یہ الفاظ بھی کہے تھے’’اگر اللہ مجھ کو پکڑنے پر قادر ہوگیا تو مجھے ایسا عذاب دے گا جو تمام جہانوں میں سے کسی کو نہیں دیاہوگا‘‘ بیٹوں نے وصیت نافذ کردی،اللہ تعالیٰ نے اسے دوبارہ زندہ کرکے پوچھا:تم نے جو کچھ کیا اس پر تمہیں کس چیز نے اُبھارا؟اس نے کہا تیری خشیت نے۔تو اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرمادیا۔ اس شخص نے اللہ تعالیٰ کی قدرت پہ شک کیا تھا،وہ یہ سمجھے ہوئے تھا کہ جب میں جلا کر، راکھ بناکر اڑا دیا جاؤ نگا تو دوبارہ زندہ نہیںکیاجاسکتا۔یہ عقیدہ کفر ہے، جس کے کفر ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے،لیکن یہ شخص جاہل تھا،اور اس مسئلہ کا علم نہیں رکھتاتھا،اس کے ساتھ ساتھ مؤمن تھا اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کے خوف میں مبتلا تھا،لہذا اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرمادیا۔ تو پھر وہ شخص جو کسی مسئلہ میں متأول ہے،(خواہ وہ تاویل غلط ہی کیوںنہ ہو) دین میں نیک نیتی سے اجتہاد کرتا ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت پر حریص بھی ہے،وہ اس جلائے جانے والے انسان کی بہ نسبت زیادہ معافی ومغفرت کامستحق ہے۔ ‘‘ اس تقریر سے قول اورقائل اورفعل اورفاعل کے مابین فرق واضح ہوگیا،چنانچہ ہر قول یافعل، کفریافسق نہیں ہوتا کہ جس کے قائل یافاعل پرکفرکا فتویٰ لگادیا جائے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے مجموع الفتاویٰ(۳۵/۱۶۵) میں فرمایا ہے :’’ اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ مقالہ جس کا کتاب وسنت اور اجماعِ امت سے کفر ہونا ثابت ہوجائے،اس مقالہ کے بارہ