کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 194
اس اونٹنی پر اس کا کھانا اورپانی ہے،اب وہ تلاشِ بسیار کے بعد مایوس ہوکر کسی درخت کے سائے تلے لیٹ جاتاہے،وہ اپنی سواری سے پوری طرح مایوس ہوچکا ہے،پھر اچانک نظر اٹھا کردیکھتا ہے،تو اسے اپنی اونٹنی سامنے کھڑی دکھائی دیتی ہے، وہ دوڑ کر اس کی لگام تھام لیتاہے اورشدتِ فرح سے اپنی زبان سے یہ جملہ بول جاتا ہے:اے اللہ تومیرابندہ اورمیں تیرارب ہوں۔چنانچہ وہ شدتِ فرح کی بناء پر یہ غلط جملہ بول جاتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاویٰ لابن القاسم(۱۲/۱۸۰) میں فرماتے ہیں: ’’ جہاں تک کسی کی تکفیر کا معاملہ ہے،تو اس بارہ میں درست بات یہ ہے کہ امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فرد اگر حق کی تلاش کی کوشش میں غلطی کرجائے تو اسے کافر نہیں کہاجاسکتا،بلکہ اس کی غلطی تو قابلِ معافی ہے،لیکن جس شخص پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان واضح ہو،وہ ہدایت پالینے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کا مرتکب ہوتاہے،اور سبیل المؤمنین کو چھوڑکر کسی اور راستہ کا پیروکار بن جاتا ہے تو وہ یقینا کافر ہے۔البتہ جو شخص اپنی خواہشات کا پیرورکارہواور طلبِ حق میںکوتاہی کرجائے اور بلاعلم کوئی بات کہہ جائے تو وہ نافرمان اور گناہگار قرار پائے گا،یہ شخص بعض اوقات فاسق کہلاتا ہے اوربعض اوقات گناہگارتوہوتا ہے لیکن اسکی نیکیاں گناہوں پر راجح اور غالب ہوتی ہیں۔ ‘‘ شیخ الاسلام رحمہ اللہ مجموع الفتاویٰ(۲/۲۲۹) میں مزید فرماتے ہیں: ’’ میں اورمیرے ساتھ مجلس کرنے والے اکثر ساتھی بخوبی جانتے ہیں کہ میں اس بات کا سب سے بڑا منکر اور مخالف ہوں کہ کسی معین شخص کو کافر ،فاسق یاعاصی یعنی نافرمان کہاجائے ۔ الّایہ کہ یقینی علم ہوجائے کہ اس معین شخص پر کتاب وسنت کی دلیل کی حجت قا ئم ہوچکی ہے،ایسی دلیل جس کا