کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 188
ایک خلقِ عظیم پیروکار ہے، عقیدہ کے باب میںاشاعرہ کے مذہب پر نہیں بلکہ سلف صالحین اھل الحدیث کے مذہب پرتھے۔اس سے بھی اوپر اگر آپ طبقۂ تابعین پرنگاہ ڈالیں توآپ کو ان میں سے کوئی بھی مذہبِ اشاعرہ پر نہیں ملے گا۔اوراگر اس سے بھی اوپراصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاءِ راشدین رضوان اللہ علیھم اجمعین کے زریںاورسنہری دور کو دیکھیں تو اسماء وصفات کے باب میں، ان میں سے کسی کا وہ عقیدہ نہیں جسے اشاعرہ اپناکر مذہبِ سلف صالحین سے خارج ہوگئے۔ ہمیں اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اشعری مذہب کی طرف منسوب بعض علماء کی اسلام میں اچھی خدمات ہیں،انہوں نے اسلام کا بھرپور دفاع کیا،نیز انہوں نے کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روا یۃً ودرایۃً اہتمام بھی کیا،وہ مسلمانوں کے نفع وہدایت کے حریص بھی تھے،لیکن یہ تمام امور قطعاً اس بات کو موجب ومسلتزم نہیں کہ جس مسئلے یامسائل میں وہ غلطی کرگئے،غلطی کے باوجود انہیں معصوم قراردے دیا جائے؟اوران کے ہر قول کو آنکھیں بند کرکے قبول کرلیاجائے؟ اوران کی غلطیوں کو بیان کرکے ان کا رد نہ کیاجائے؟حقیقت یہ ہے کہ ان کی اخطاء واغلاط کے ذکر اور پھر رد میں بیانِ حق اور ہدایت ونصیحتِ خلق کا پہلو موجود ہے۔جو نہایت ضروری ہے۔ ہمیں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ بعض اشعری علماء کی( اختیارِ مذہب کے تعلق سے) نیت انتہائی نیک اور صالح تھی،لیکن معلوم ہونا چاہیئے کہ کسی کا قول قبول کرنے کیلئے محض اس کی نیت کا اچھاہونا کافی نہیں،بلکہ ضروری ہے کہ وہ قول اللہ تعالیٰ کی شریعت کے بھی موافق ہو۔اگر موافق نہ ہو بلکہ مخالف ہوتو اس کا رد کرنا ضروری ہے، خواہ اس کا قائل کوئی بھی ہو۔الصادق المصدوق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: