کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 183
ترجمہ: بصیرت کے اندھوں پر تعجب ہے کہ وہ مقلد کو صاحبِ دلیل قراردیتے ہیں،اور وہ بلاغوروفکر اور بلادلیل ،مقلد کو بوجہ تقلید دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں۔یہ لوگ دونوں وحیوں(قرآن وحدیث) سے بالکل اندھے ہیں؛کیونکہ وہ ان کا معنی سمجھنے سے قاصر ہیں ،تو اس محرومِ ہدایت شخص پرتعجب ہے۔ الشیخ محمد أمین الشنقیطی اضواء البیان (۲/۳۱۹)میں سورۂ الاعراف کی آیت مبارکہ جس میں اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا ذکرہے کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ جان لوکہ اس معاملہ میں متأخرین میں سے بے شمار لوگ بہت بڑی غلطی کا شکار ہوگئے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات مثلاً: استوا ء علی العرش یا الید (ہاتھ)وغیرہ کا جو معنیٔ ظاہر، متبادر الی الذہن ہے،اس کو مان لینے سے مخلوقات سے تشبیہ لازم آتی ہے،لہذا ان نصوص کو ان کے معنیٔ ظاہر سے اجماعاً پھیرنا فرض ہوا۔ (شیخ فرماتے ہیں:) اب آپ غور کریں کہ ان کے اس قول سے کیا لازم آرہا ہے؟اس قول سے لازم آرہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ِمقدس کے اندر جو اپنی صفات بیان فرمائی ہیںان کا ظاہری معنی کفر پر مشتمل ہے ،ان کے معنیٔ متبادر الی الفھم کا مطلب یہ ہے کہ (نعوذ باللہ ) یہ صفات جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بارہ میں خود بیان فرمائی ہیں،اللہ تعالیٰ کے لائقِ شان نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب یوں بیان فرمایا ہے: [وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْہِمْ ][1]
[1] النحل:۴۴