کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 178
ترجمہ:اورہم نے ان میں سے، چونکہ ان لوگوں نے صبر کیاتھا ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کوہدایت کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ابراھیمعلیہ السلام کے بارہ میں فرمایا: [اِنَّ اِبْرٰہِيْمَ كَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلہِ حَنِيْفًا۝۰ۭ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝۱۲۰ۙ شَاكِرًا لِّاَنْعُمِہٖ۝۰ۭ اِجْتَبٰىہُ وَہَدٰىہُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ۝۱۲۱ ][1] ترجمہ:بیشک ابراھیم پیشوا اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور یک طرفہ مخلص تھے،وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے،اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا برگزیدہ کرلیاتھا اور انہیں راہِ راست سجھادی تھی۔ واضح ہو کہ متأخرین اشاعرہ جو امام ابو الحسن الاشعری کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں وہ ان کی صحیح معنی میں اقتداء کا حق ادانہ کرسکے،چنانچہ عقیدہ کے باب میں ،ابوالحسن الاشعری کی زندگی تین مراحل میں تقیسم ہوتی ہے: (۱) پہلا مرحلہ:مرحلۂ اعتزال ہے،انہوں نے چالیس سال معتزلہ کا مذہب اپنائے رکھا، اسے بڑی شد ومد سے پیش کرتے،اور اس کے اثبات کیلئے مناظرے کرتے،پھر مذہبِ معتزلہ سے رجوع کرلیا،اور بڑی صراحت سے ان کے گمراہ ہونے کا فتویٰ دیا،اور اسی شد ومد سے ان کی تردید وتفنید شروع کردی۔ (۲) دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ خالص اعتزال اورخالص سنت کے بیچ بیچ ایک راہ اپنالی،یہ ابومحمد
[1] النحل:۱۲۱-۱۲۰