کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 174
اس کا جواب یہ ہے کہ فقط ترغیب وتحریض کا معنی اجاگرکرنے کیلئے ۔جیسے اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: [مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَـنًا ][1] ترجمہ:ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرضِ حسنہ دے۔ (اب بھلااللہ تعالیٰ کو قرض کی کیا حاجت؟بس اللہ تعالیٰ نے اس اسلوب کے ذریعے صدقہ کی اہمیت اور اس پر ترغیب وتحریض کا پہلو اجاگرفرمایا۔) یہ حدیث سب سے بڑی اور قوی دلیل ہے ، جو ان اہل تاویل کہ جوکتاب وسنت کی دلیل کے بغیر ہی نصوصِ صفاتِ باری تعالیٰ کو ان کے ظاہر سے بصورتِ تحریف پھیرنے کی مذموم سعی کرتے ہیں،کے سروں پر ضرب کاری ہے ۔ان کی تمام تر تحریفات اورتاویلات کی بنیادان کے وہ شبہات ہیں جن میں وہ خود ہی متناقض، مضطرب اور متحیر ہیں۔کیونکہ ان نصوص کی مراد اگر معنیٔ ظاہر کے خلاف ہوتی تو اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بالضرور اسے بیان فرمادیتے،اور اگران نصوص کا ظاہر اللہ تعالیٰ پر ممتنع ہوتا تو بھی اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ضرور بیان فرمادیتے،جیسا کہ اس حدیث میں فرمادیا،اور اگر ظاہرِ نصوص جو (سلفِ صالحین کے بیان کے مطابق) اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان ہے،(بقول اہلِ تاویل ) اللہ تعالیٰ کے حق میں ممتنع ہوتا تو کتاب وسنت میں ایسی بے شمار مثالیں ہوتیں جو اللہ تعالیٰ کی ان صفات پر مشتمل ہوتیں ،جو اللہ تعالیٰ پر (بقول اہلِ تاویل) ممتنع ہوتیں،اور ان کا اثبات بڑے تکلف کے ساتھ کرنا پڑتا… یہ سب سے بڑا محال ہے۔
[1] البقرۃ:۲۴۵