کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 173
جواب: سلفِ صالحین نے اس حدیث کے ظاہر ہی کو لیاہے،اور بھلا وہ ظاہرسے عدول کی جسارت کیسے کرسکتے ہیں،اور وہ بھی ان لوگوںکی طرح جو نصوص میں تحریف جیسے فعلِ شنیع کا ارتکاب کرکے اپنی من مانی خواہشات کے ذریعے خبطیاں مارنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ سلفِ صالحین نے اس حدیث کی وہ تفسیر کی ہے جو اس کے متکلم (اللہ تعالیٰ ) نے کی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کافرمان:میں بیمار ہوا… میں نے تجھ سے کھانا مانگا…میں نے تجھ سے پانی مانگا…وہ جملے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے خود ہی تفسیر کردی ۔چنانچہ بندے کے استفسارپر اللہ تعالیٰ فرمائے گا:میرا فلاں بندہ بیمار ہوگیاتھا…میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیاتھا… میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا… اللہ تعالیٰ کی یہ تفسیر اس بات کی صریح دلیل ہے کہ بیمار ہونے والا اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کوئی بندہ تھا۔اسی طرح کھانا اور پانی طلب کرنے والا اللہ تعالیٰ کا کوئی بندہ تھا۔اب یہ تفسیر خوداللہ تعالیٰ نے فرمادی جو اس حدیث کا متکلم ہے اورجو اسکی مراد کو سب سے زیادہ اور بہتر جاننے والاہے۔لہذا اگر ہم اس مرض کی، جو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہے،یاوہ کھاناطلب کرنا، جو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہے یا وہ پانی مانگنا، جو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہے،کی تفسیر بندے کے مرض سے کریں،یااس کے کھانا یا پانی طلب کرنے سے کریں تو یہ تو کوئی تاویل ہے نہ تحریف ہے،اورنہ ہی معنیٔ ظاہر سے عدول وانحراف، کیونکہ یہ تفسیر خود اللہ تعالیٰ نے فرمادی ہے … اب اسے یوںہی سمجھیئے جیسے اللہ تعالیٰ ان امور کو اپنی طرف منسوب کیئے بغیر ابتداء ً اپنے بندوں کی طرف منسوب فرمارہاہے ۔ اب سوال یہ باقی رہ گیاکہ اللہ تعالیٰ نے ان امورکو ا پنی ذات کی طرف کیوں منسوب فرمایا؟