کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 165
[اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَہُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَيْدِيْنَآ اَنْعَامًا فَہُمْ لَہَا مٰلِكُوْنَ۝۷۱ ][1] ترجمہ:کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کیلئے چوپائے جانور بھی پیداکردیئے۔ جواب: پہلے اس آیت کے ظاہری وحقیقی معنی کا تعین ضروری ہے،تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ یہاں معنیٔ ظاہر سے انحراف کی کیا شکل ہے؟ کیا اس آیت کا ظاہری وحقیقی معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چوپا ؤں کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا، جیسا کہ آدم علیہ السلام کواپنے ہاتھ سے خلق فرمایا؟یا اس آیت کا ظاہری معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چوپاؤں کواس طرح پیدا فرمایا جس طرح دیگر مخلوقات کو پیدافرمایا(یعنی اپنے ہاتھ سے نہیں) بلکہ تخلیقِ انعام کی نسبت اپنے ہاتھ کی طرف فرما ئی ہے، مراد اپنی ذات ہے (یعنی صاحب الید) جس عربی لغت میں قرآن مجید کا نزول ہوا اس میں یہ اسلوب معروف ہے۔ پہلا قول آیتِ مذکورہ کا ظاہر نہیں بن سکتا اور اس کی دووجوہات ہیں: (۱)پہلی وجہ یہ کہ جس عربی لغت میں قرآنِ حکیم کا نزول ہوا اس میں آیتِ کریمہ میں استعمال شدہ لفظ کاظاہری تقاضہ یہ نہیں بنتا،اس سلسلہ میں مزید مثالیں ملاحظہ ہوں: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: [وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَۃٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ۝۳۰ۭ ][2]
[1] یس:۷۱ [2] الشوریٰ:۳۰