کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 157
ایک معطیٰ (جسے دیا جائے) دوسرا معطِی (دینے والا) ایک مستعیذ(پناہ طلب کرنے والا) دوسرا مستعاذ بہ (جس سے پناہ طلب کی جائے) ایک معاذ(جسے پناہ دی جائے ) دوسرا معیذ(پناہ دینے والا) گویا سیاقِ حدیث سے دو جداذاتیں ثابت ہورہی ہیں،جن میں سے ہرذات دوسرے کی غیر ہے۔جب دوذاتیں اس قدر جدا اور متباین ہونگی تو پھر ایک ذات،دوسری ذات کا کوئی وصف یا جزء کیسے بن سکتی ہے؟ یہ امرِ ممتنع ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ولی کے کان ،آنکھ ،ہاتھ اور پاؤں ایک مخلوقِ حادث کے اوصاف یا اجزاء ہیں، جو پہلے معدوم تھا،بعدمیں وجود میں آیا۔کوئی دانا انسان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ اس خالق کو کہ جو ازل سے ہے اور جس سے قبل کوئی چیز نہیں تھی،مخلوق کے کان،آنکھ،ہاتھ اورپاؤں قرار دے۔بلکہ اس فاسد معنی کے تصور ہی سے دل کانپ اٹھتا ہے زبان گنگ ہوجاتی ہے اوربولنے کی صلاحیت کھوبیٹھتی ہے۔خواہ یہ معنی بفرضِ محال تھوڑی دیرکیلئے ہی مراد لیاجائے… توپھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس معنی کو اس حدیث ِ قدسی کا ظاہر قرار دیاجائے،اور سلفِ صالحین کے بیان کردہ صحیح معنی کو معنیٔ ظاہر سے انحراف قرار دیاجائے؟ اے اللہ تو پاک ہے،تیر ی ہی حمد وبادشاہت ہے،ہم تیری ثناء بیان نہیں کرسکتے ،جسطرح کہ تو نے اپنی ثناء بیان فرمائی ہے۔ اس حدیث کے معنی میں ذکر کردہ جب پہلے قول کا باطل وممتنع ومحال ہونا ثابت ہوگیا توپھر دوسرا قول متعین ہوگیا،اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے ولی بندے کو اس کے سمع ،بصر اور ہر عمل میں اس قدر سیدھا پن واصلاح واستقامت عطافرمادیتاہے،کہ اس کے کان،آنکھ،ہاتھ اور پاؤں