کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 154
عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ۝۱۹۵ۭ ][1] ترجمہ:اسے امانت دار فرشتہ لیکر آیا ہے ،آپ کے دل پر اتارا ہے،کہ آپ آگاہ کردینے والوں میں سے ہوجائیں،صاف عربی زبان میں ہے۔ اب عربی لغت میں اگرکوئی شخص کہے :’’فلان یسیر بعینی ‘‘ تو اس کا معنی کوئی بھی شخص یہ نہیں سمجھے گا کہ فلاں اس کی آنکھ کے اندر چل رہا ہے۔اسی طرح اگر کوئی شخص یوں کہے :’’فلان تخرج علی عینی‘‘ تو کوئی شخص یہ نہیں سمجھے گا کہ وہ سوار ہوکر اس کی آنکھ کے اوپر جارہاہے۔اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ یہاں ظاہرِ خطاب کا یہی تقاضا ہے تو اس بات سے بے وقوف سے بے وقوف شخص ہنسے گا ،عقلاء کی تو بات ہی چھوڑیئے ۔ (۲) دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ معنی اللہ تبارک وتعالیٰ کے حق میں بالکل محال وممتنع ہے؛کیونکہ جسے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی کماحقہ قدر بجالاتاہے ،ناممکن ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارہ میں ا س قسم کا فہم رکھے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی ہے اور اپنی مخلوق سے بالکل جدا ہے،نہ تو اس کی مخلوقات میں سے کو ئی اس کے اندر حلول کرسکتا ہے ،نہ وہ کسی کے اندر حلول کیئے ہوئے ہے ،اللہ تعالیٰ پاک ہے اور ان چیزوں سے بہت بلند ہے۔ جب لفظی ومعنوی اعتبار سے اس حقیقت کا بطلان ثابت ہوگیا تو پھردوسری ذکر کردہ حقیقت متعین ہوگئی،وہی ان دونوں آیتوں کا معنیٔ ظاہر قرار پائے گی۔یعنی (۱) سفینۂ نوح چل رہا تھا، اللہ تعالیٰ کی آنکھ اس کی دیکھ بھال اور حفاظت فرمارہی تھی ۔ (۲) اور موسیٰ علیہ السلام کی پرورش
[1] الشعراء:۱۹۵-۱۹۳