کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 152
ترجمہ:ہم جب اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں۔ یہاں قرأت سے مراد جبرائیلِ امین کی قرأت ہے،جو وہ انزالِ وحی کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فرمایاکرتے تھے،حالانکہ اسے اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایاہے،تو چونکہ جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے امر سے قرأت فرماتے تھے ،لہذا اللہ تعالیٰ کی طرف بھی قرأت کی نسبت واضافت صحیح ٹھہری ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: [فَلَمَّا ذَہَبَ عَنْ اِبْرٰہِيْمَ الرَّوْعُ وَجَاۗءَتْہُ الْبُشْرٰي يُجَادِلُنَا فِيْ قَوْمِ لُوْطٍ۝۷۴][1] ترجمہ: جب ابراھیم کا ڈروخوف جاتا رہا اور اسے بشارت بھی پہنچ چکی تو ہم سے قومِ لوط کے بارہ میں جدال( جھگڑہ) کرنے لگے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے ابراھیم علیہ السلام کے جدال اور جھگڑنے کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے، حالانکہ انہوں نے ملائکہ کے ساتھ جدال کیا تھاجو اللہ تعالیٰ کے نمائندے اور ایلچی کی حیثیت سے بشار ت لیکر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ نویں اور دسویں مثال: اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کے سفینہ کے بارہ میں فرمایا تھا:[تَجْرِيْ بِاَعْيُنِنَا۝۰ۚ ][2]
[1] ھود:۷۴ [2] القمر:۱۴