کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 151
[حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَہُمْ لَا يُفَرِّطُوْنَ۝۶۱ ][1] ترجمہ:یہاںتک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آپہنچتی ہے تو اس کی روح ہمارے بھیجے ہوئے(فرشتے) قبض کرلیتے ہیں،اور وہ ذرا کوتاہی نہیں کرتے۔ علاوہ ازیں مذکورہ آیت میں قولہ تعالیٰ:[وَلٰکِن لَّا تُبْصِرُوْنَ] بھی قابلِ غور ہے،جو کہ اس بات کی بڑی صریح اور بین وواضح دلیل ہے کہ یہاں قرب سے ملائکہ کاقرب مراد ہے،کیونکہ ذکر یہ ہورہا ہے کہ وہ چیز جس کے قرب کا ذکرہورہا ہے وہ اسی مقام پر موجود ہے مگر ہم اسے دیکھ نہیں سکتے ،یہ بات اللہ تعالیٰ کے حق میں نہیں کی جاسکتی بلکہ اللہ تعالیٰ کے حق میں کہنا امرِ محال ہے،لہذا یہ بات متعین ہوگئی کہ یہاں ملائکہ کا قرب ہی بیان ہوا ہے ۔ ایک سوال باقی رہ جاتا ہے کہ پھر یہ قرب اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کیوں منسوب فرمایاہے؟ اور کیااس قسم کی تعبیر قرآنِ حکیم میں اور کسی مقام پر ذکر ہوئی ؟ جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کاقرب اپنی طرف اس لیئے منسوب فرمایاکہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کے امر سے ہی قریب ہوتے ہیں،اور کیوں نہ؟ملائکہ اللہ تعالیٰ ہی کا لشکر اوراس کے نمائندے ہیں۔ اس قسم کی تعبیر کئی مقام پر مذکور ہے(یعنی فعلِ ملائکہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا) کقولہ تعالیٰ:[فَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ۝۱۸ۚ ][2]
[1] الانعام:۶۱ [2] القیامۃ:۱۸